یہ سورۂ ’طٰہٰ‘ ہےیہ سورۂ ’طٰہٰ‘ ہے۔
n/a
طٰہ
n/a
طٰہٰ
ہم نے تم پر قرآن اس لیے نہیں اتارا ہے کہ تم مصیبت میں پھنس جاؤ
یہ نہایت دل نواز اور پر محبت انداز میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھایا ہے کہ قرآن کی تبلیغ و دعوت سے متعلق آپ نے اپنے سر پر جو ذمہ داری اٹھائی ہے اور جو محنت شاقہ اس کے لیے آپ جھیل رہے ہیں، اس کا مطالبہ ہرگز آپ سے نہیں ہے۔ آپ کی ذمہ داری صرف لوگوں تک اس کتاب کو پہنچا دینے کی ہے۔ جن کے اندر حق شناسی کی صلاحیت اور خشیت الٰہی کی کچھ رمق ہو گی وہ اس کو قبول کریں گے، جو ان صلاحیتوں سے عاری ہیں ان کے دلوں میں اس کو اتار دینا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے کہ ان کے پیچھے آپ اپنی زندگی کو اجیرن بنا لیں۔
یہ بات ہم اس کتاب میں متعدد جگہ واضح کر چکے ہیں کہ رات دن دعوت کے کام میں لگے رہنے کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے کہ لوگ اتنی واضح بات کو جھٹلا رہے ہیں اور کسی طرح ان کے دل نرم ہوتے نظر نہیں آتے تو آپ کو یہ پریشانی ہوتی کہ مبادا اس میں آپ ہی کی کسی کوتاہی کو دخل ہو۔ اس احساس سے دعوت کے کام میں آپ کی سرگرمیاں اور بڑھ جاتیں اور سارے جتن کر ڈالنے کے باوجود آپ کو کسی طرح تشفی نہ ہوتی۔ آپ کی اسی حالت پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ قرآن آپؐ پر اس لیے نہیں اتارا گیا کہ آپؐ کی زندگی اجیرن ہو کے رہ جائے۔ آپ کی جو ذمہ داری ہے وہ ادا کر دیجیے۔ دوسروں کے ایمان و اسلام کی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے۔
ہم نے یہ قرآن تم پر اِس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔
یہ نہایت دل نواز اور محبت بھرے انداز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے کہ آپ دوسروں کے ایمان کی فکر میں اپنی زندگی اجیرن نہ کریں۔ خدا نے آپ سے یہ مطالبہ نہیں کیا ہے کہ آپ ایمان و اسلام کی اِس دعوت کو ہر حال میں اپنے مخاطبین کے اندر اتار دیں۔ یہ آپ کی قدر نہیں پہچان رہے تو آپ کو بھی اِن کے پیچھے جان ہلکان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کے پروردگار نے آپ کو اِس کا مکلف نہیں ٹھیرایا ہے۔
ہم نے یہ قرآن تم پر اس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مصیبت میں پڑجاؤ۔
n/a
ہم نے یہ قرآن تجھ پر اس لئے نہیں اتارا کہ تو مشقت میں پڑجائے۔ (١)
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے قرآن اس لئے نہیں اتارا کہ تو ان کے کفر پر کثرت افسوس اور ان کے عدم ایمان پر حسرت سے اپنے آپ کو مشقت میں ڈال لے اور غم میں پڑجائے جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے۔ (فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا) 18 ۔ الکہف :6) پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے بلکہ ہم نے تو قرآن کو نصیحت اور یاد دہانی کے لیے اتارا ہے تاکہ ہر انسان کے تحت الشعور میں ہماری توحید کا جو جذبہ چھپا ہوا ہے۔ واضح اور نمایاں ہوجائے گویا یہاں شقآء عنآء اور تعب کے معنی میں ہے یعنی تکلیف اور تھکاوٹ۔
یہ تو بس ان لوگوں کے لیے یاددہانی ہے جو خدا سے ڈریںیہ تو بس ان لوگوں کے لیے یاددہانی ہے جو خدا سے ڈریں۔
قرآن ایک تذکرہ ہے: اس ٹکڑے سے قرآن کی حیثیت بھی واضح ہو گئی، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری کی حد بھی معین ہو گئی اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ کون لوگ اس سے اثر پذیر ہوں گے اور کون اس سے محروم رہیں گے۔
فرمایا کہ یہ تو بس ایک ’تذکرہ‘ ہے۔ ’تذکرہ‘ کے معنی یاددہانی کے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یاددہانی جس چیز کی کی جاتی ہے وہ خارج سے لائی ہوئی چیز کی نہیں کی جاتی بلکہ اس چیز کی کی جاتی ہے جو مخاطب کے خود اپنے پاس ہو لیکن وہ اس کو بھولا ہوا ہو۔ قرآن پر غور کیجیے تو اس کی اصلی نوعیت یہی ہے۔ وہ کوئی اوپری اور انوکھی چیز نہیں ہے۔ وہ کسی خارج سے لائی ہوئی چیز کو ہمارے اوپر نہیں لادتا بلکہ انہی حقائق کی یاددہانی کرتا ہے جو خود ہماری فطرت کے اندر موجود ہیں لیکن ہم ان سے غافل ہیں۔ قرآن ان حقائق کی یاددہانی کے لیے جو دلائل استعمال کرتا ہے وہ بھی آفاق و انفس کے وہی دلائل ہیں جو ہماری عقل کے خزانے میں موجود ہیں۔ لیکن ہم یا تو ان کو استعمال نہیں کرتے یا ان کے بدیہی نتائج کو قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ عبرت و موعظت کے لیے قرآن نے جو تاریخ پیش کی ہے وہ بھی ان قوموں کی پیش کی ہے جو مخاطب گروہ کی جانی پہچانی ہوئی تھیں۔ جن انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کا حوالہ دیا ہے یہ بھی وہ انبیاء ہیں جن کی ذریت اور جن کے پیرو ہونے کے لوگ مدعی تھے۔
قرآن سے اثر پذیر ہونے کے لیے شرط: اس یاددہانی سے اثر پذیر ہونے والوں کی صفت ’لِّمَنْ یَّخْشٰی‘ بیان فرمائی۔ قرینہ دلیل ہے کہ ’یَّخْشٰی‘ کا مفعول یہاں محذوف ہے۔ قرآن کے نظائر کی روشنی میں اس محذوف کو متعین کیجیے تو پوری بات یوں ہو گی کہ ’لِّمَنْ یَّخْشٰی رَبَّہٗ بِالْغَیْبِ‘ یعنی یاددہانی ان لوگوں کے لیے ہے جو غیب میں رہتے اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ یہ دوسرے لفظوں میں وہی بات ارشاد ہوئی ہے جو بقرہ کی دوسری ہی آیت میں ’ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ‘ کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ وہاں ہم نے تفصیل سے واضح کیا ہے کہ یہ تقویٰ اور یہ خوف ان تمام لوگوں کے اندر موجود ہوتا ہے جن کی فطرت مسخ ہونے سے محفوظ رہتی ہے۔ اس طرح کے لوگوں پر اگر غفلت ہوتی ہے تو وہ قرآن کی یاددہانی سے دیر سویر جاگ پڑتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو اپنی بداعمالیوں سے اپنی فطرت مسخ کر لیتے ہیں ان کو کتنا ہی جھنجھوڑیے وہ کروٹ نہیں لیتے۔ ان کے اوپر گدھوں کی طرح ڈنڈے کی منطق کے سوا اور کوئی منطق کارگر نہیں ہوتی۔ وہ سب کچھ سر کی آنکھوں سے دیکھ کر ماننا چاہتے ہیں لیکن خدا کے ہاں ماننا صرف وہ معتبر ہے جو عقل و دل کی آنکھوں سے دیکھ کر مانا جائے نہ کہ سر کی آنکھوں سے۔
نبی مذکِّر ہوتا ہے نہ کہ مصیطر: قرآن کے تذکرہ ہونے سے یہ بات بھی نکلی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایک ’مذکِّر‘ کی ہے، نہ کہ ایک ’مصیطر‘ کی۔ آپ کا فریضہ صرف یہ تھا کہ آپ لوگوں کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلا دیں۔ یہ لوگ اس سبق کو یاد کرتے ہیں یا نہیں، یہ لوگوں کی ذمہ داری تھی نہ کہ آپ کی۔ قرآن نے یہاں اسی حقیقت کو واضح کیا ہے کہ اگر آپ کی قوم کے لوگ آپ کی تذکیر سے فائدہ نہیں اٹھا رہے ہیں تو آپ پریشان نہ ہوں، اس کے لیے جواب دہ عند اللہ وہ ہیں نہ کہ آپ۔
یہ تو صرف ایک یاددہانی ہے اُن کے لیے جو (بن دیکھے) اپنے پروردگار سے ڈریں
یعنی اُن حقائق کی یاددہانی ہے جو انسان کی فطرت میں ودیعت ہیں، جن کے دلائل خود اُس کی عقل کے خزینوں میں موجود اور اُس کی تاریخ میں محفوظ ہیں۔
اِس سے یہ بات واضح ہوئی کہ خدا کے پیغمبر تذکیر و نصیحت کے لیے آتے ہیں، اُنھیں لوگوں کے لیے داروغہ بنا کر نہیں بھیجا جاتا۔ اُن کی ذمہ داری اِس کے سوا کچھ نہیں ہوتی کہ وہ لوگوں کو اُن کا بھولا ہوا سبق یاد دلا دیں۔ پھر یہ لوگوں کا کام ہے کہ اُس سے یاددہانی حاصل کرکے فوز و فلاح سے ہم کنار ہوں یا اُسے جھٹلا کر جہنم کا ایندھن بن جائیں۔
یہ تو ایک یاد دہانی ہے ہر اس شخص کے لیے جو ڈرے۔
یہ فقرہ پہلے فقرے کے مفہوم پر خود روشنی ڈالتا ہے۔ دونوں کو ملا کر پڑھنے سے صاف مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ قرآن کو نازل کر کے ہم کوئی اَنْہونا کام تم سے نہیں لینا چاہتے۔ تمہارے سپرد یہ خدمت نہیں کی گئی ہے کہ جو لوگ نہیں ماننا چاہتے ان کو منوا کر چھوڑو اور جن کے دل ایمان کے لیے بند ہوچکے ہیں ان کے اندر ایمان اتار کر ہی رہو۔ یہ تو بس ایک تذکیر اور یاد دہانی ہے اور اس لیے بھیجی گئی ہے کہ جس کے دل میں خدا کا کچھ خوف ہو وہ اسے سن کر ہوش میں آجائے۔ اب اگر کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں خدا کا کچھ خوف نہیں، اور جنہیں اس کی کچھ پروا نہیں کہ حق کیا ہے، اور باطل کیا، ان کے پیچھے پڑنے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں۔
بلکہ اس کی نصیحت کے لئے جو اللہ سے ڈرتا ہے۔
یہ نہایت اہتمام کے ساتھ اس ذات کی طرف سے اتارا گیا ہے جس نے زمین اور بلند آسمانوں کو پیدا کیا ہے
’تنزیل‘ کا مفہوم: ’تنزیل‘ کے معنی دوسرے مقام میں ہم واضح کر چکے ہیں کہ کسی چیز کو نہایت اہتمام اور ترتیب و تدریج کے ساتھ اتارنے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن چونکہ لوگوں کی یاددہانی کے لیے اترا ہے اس وجہ سے اللہ نے صرف اتنے پر اکتفا نہیں فرمایا کہ کسی نہ کسی طرح بات ایک مرتبہ لوگوں تک پہنچ جائے بلکہ نہایت اہتمام اور تدریج اور وقفہ وقفہ کے ساتھ اس کو اتارا تاکہ لوگوں کے لیے یہ عذر باقی نہ رہے کہ بات کے سنانے یا سمجھانے میں کوئی کسر رہ گئی۔
قرآن کسی سائل کی درخواست نہیں بلکہ خالق کا فرمان ہے: ’مِّمَّنْ خَلَقَ الْاَرْضَ وَالسَّمٰوٰتِ الْعُلٰی‘۔ یہ قرآن کی عظمت واضح فرمائی کہ یہ زمین اور بلند آسمانوں کے خالق و مالک کی طرف سے اتارا گیا ہے۔ نہ یہ کوئی ہوائی بات ہے کہ یوں ہی ہوا میں اڑ جائے نہ یہ کسی سائل کی درخواست ہے کہ لوگوں نے قبول کر لی تو سائل پر ان کا کرم ہو گا، نہ قبول کی تو سائل محروم ہو کر رہ جائے گا۔ بلکہ یہ خالق ارض و سماء کا فرمان واجب الاذعان ہے، اگر لوگوں نے اس کو رد کیا تو اچھی طرح سوچ لیں کہ اس کے نتائج کیا کچھ ہو سکتے ہیں۔
اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ اشارہ بھی ہے کہ اس کو اسی طرح لوگوں کے سامنے پیش کیجیے جس طرح آسمان و زمین کے خالق و مالک کا کلام پیش کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے نہ زیادہ استمالت کی ضرورت ہے، نہ کسی الحاح و اصرار کی۔ اس کے قبول کرنے میں لوگوں کا اپنا نفع ہے نہ کہ خدا کا۔ یہ کوئی ملتجیانہ درخواست نہیں ہے بلکہ خلق کے لیے صحیفۂ ہدایت ہے اس کو رد کرنے والے خود اپنی شامت بلائیں گے۔ آپ کا کچھ نہیں بگاڑیں گے۔
یہ مضمون مختلف اسلوبوں سے قرآن مجید میں جگہ جگہ بیان ہوا ہے۔ سورۂ عبس میں یہی حقیقت یوں واضح کی گئی ہے:
کَلَّآ اِنَّھَا تَذْکِرَۃٌ فَمَنْ شَآءَ ذَکَرَہٗ فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَھَّرَۃٍ بِاَیْدِیْ سَفَرَۃٍ کِرَامٍ بَرَرَۃٍ. (۱۱-۱۶)
“ہرگز نہیں! یہ تو ایک یاددہانی ہے تو جو چاہے اس سے فائدہ اٹھائے۔ یہ معزز بلند اور پاکیزہ صحیفوں میں ہے۔ باعزت اور باوفا کاتبوں کے ہاتھ میں۔”
یہ نہایت اہتمام کے ساتھ اُس ہستی کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جس نے زمین کو اور (تمھارے اوپر) اِن اونچے آسمانوں کو پیدا کیا ہے
n/a
نازل کیا گیا اس ذات کی طرف سے جس نے پیدا کیا ہے زمین کو اور بلند آسمانوں کو۔
n/a
اس کا اتارنا اس کی طرف سے ہے جس نے زمین کو اور بلند آسمان کو پیدا کیا ہے۔
جو رحمان عرش حکومت پر متمکن ہے
قرآن کی عظمت کا بیان اور یہ خدا کی جن صفات کا مظہر ہے ان کا حوالہ: یہ قرآن کی عظمت کا بیان بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی جن صفات کا یہ مظہر ہے ان کی طرف اشارہ بھی۔ فرمایا کہ وہ خالق ارض و سماء رحمان ہے۔ اس کی رحمانیت کا تقاضا ہے کہ وہ خلق کو پیدا کر کے یوں ہی چھوڑ نہ دے بلکہ جس طرح اس نے اس کی مادی زندگی کے اسباب و وسائل مہیا فرمائے اسی طرح اس کی ہدایت کا سامان بھی کرے، چنانچہ اس نے انسان کی رہنمائی کے لیے اس کو عقل و نطق سے نوازا اور اس پر مزید فضل یہ فرمایا کہ اس کی ہدایت کے لیے اپنی کتاب اتاری۔ اسی حقیقت کی طرف سورۂ رحمان میں ’اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ‘ کے الفاظ سے اشارہ فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ آج جو لوگ قرآن کو رد کر رہے ہیں وہ نہ تو خدا کا کچھ بگاڑ رہے ہیں نہ اس کے رسول کا بلکہ خود اپنے آپ کو خدا کی سب سے بڑی رحمت سے محروم کر رہے ہیں۔
’عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی‘ یہ خدائے رحمان کی صفت بیان ہوئی ہے کہ وہ دنیا کو پیدا کر کے الگ تھلگ کسی گوشے میں نہیں جا بیٹھا ہے بلکہ بالفعل اپنی کائنات کے عرش حکومت پر متمکن ہے۔ اس کائنات کا حقیقی فرماں روا وہی ہے اس وجہ سے لوگوں کو قرآن کے ذریعہ سے اس نے اپنے احکام و قوانین سے آگاہ کر دیا ہے۔ اس آگاہی کے بعد جو لوگ اپنی من مانی کریں گے وہ حساب کے دن اپنا انجام خود دیکھ لیں گے۔
وہی رحمن، وہ (اِس کائنات کے) تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہے
n/a
وہ رحمان﴿ کائنات کے﴾ تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہے۔
یعنی پیدا کرنے کے بعد کہیں جا کر سو نہیں گیا ہے بلکہ آپ اپنے کارخانۂ تخلیق کا سارا انتظام چلا رہا ہے، خود اس ناپیدا کنار سلطنت پر فرمانروائی کر رہا ہے، خالق ہی نہیں ہے بالفعل حکمراں بھی ہے۔
جو رحمٰن ہے، عرش پر قائم ہے
بغیر کسی حد بندی اور کیفیت بیان کرنے کے، جس طرح کہ اس کی شان کے لائق ہے یعنی اللہ تعالیٰ عرش پر قائم ہے، لیکن کس طرح اور کیسے ؟ یہ کیفیت کسی کو معلوم نہیں۔
اسی کے اختیار میں ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے، جو کچھ زمین میں ہے، جو کچھ ان کے درمیان ہے اور جو کچھ زمین کے نیچے ہے
’لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَمَا بَیۡنَھُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرٰی‘۔ یہ شرک کے ہر جرثومہ کی جڑ کاٹ دی۔ فرمایا کہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان اور جو کچھ زیرزمین ہے سب کا خالق و مالک وہی ہے۔ سب کو خلق بھی اسی نے کیا ہے اور سب پر اختیار بھی اسی کا ہے۔ اس کائنات کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو اس کی خدائی سے باہر ہو۔ جس کو کسی خاص دائرے میں کوئی آزادی ملی بھی ہے وہ بھی اس کے امر و حکم کے تحت ہے۔ اس وجہ سے کوئی یہ گمان نہ کرے کہ وہ خدا سے کہیں بھاگ سکتا ہے یا کوئی دوسرا اس کو پناہ دے سکتا ہے۔
زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے اور جو کچھ زمین کے نیچے ہے، سب اُسی کے اختیار میں ہے
یہ قرآن کی عظمت واضح فرمائی ہے کہ یہ کسی سائل کی درخواست نہیں ہے، بلکہ زمین و آسمان کے خالق کا فرمان واجب الاذعان ہے۔ اُس کی رحمت کا تقاضا تھا کہ لوگوں کی ہدایت کا سامان کرے۔ چنانچہ اُس نے یہ کتاب اتاری۔ وہ اِس کائنات کو پیدا کرکے اِس سے الگ نہیں ہو بیٹھا ہے، بلکہ اِس کے تخت سلطنت پر متمکن ہے اور اپنی مخلوقات پر فرماں روائی کر رہا ہے۔ اِس کتاب کے ذریعے سے اُس نے لوگوں کو اپنے احکام و قوانین سے آگاہ کر دیا ہے۔ اب اگر اُنھوں نے اِس کی قدر نہیں پہچانی اور اِسی طرح اِس کو رد کرتے رہے تو اِس کی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے۔ وہ اِس کے نتائج خود بھگتیں گے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’اِس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ اشارہ بھی ہے کہ اِس کو اُسی طرح لوگوں کے سامنے پیش کیجیے، جس طرح آسمان و زمین کے خالق و مالک کا کلام پیش کیا جانا چاہیے۔ اِس کے لیے نہ زیادہ استمالت کی ضرورت ہے، نہ کسی الحاح و اصرار کی۔ اِس کے قبول کرنے میں لوگوں کا اپنا نفع ہے نہ کہ خدا کا۔ یہ کوئی ملتجیانہ درخواست نہیں ہے، بلکہ خلق کے لیے صحیفۂ ہدایت ہے۔ اِس کو رد کرنے والے خود اپنی شامت بلائیں گے، آپ کا کچھ نہیں بگاڑیں گے۔‘‘(تدبرقرآن ۵/ ۱۶)
مالک ہے ان سب چیزوں کا جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور جو زمین و آسمان کے درمیان ہیں اور جو مٹی کے نیچے ہیں۔
جس کی ملکیت آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان اور (کرہ خاک) کے نیچے کی ہر ایک چیز پر ہے (١) ۔
ثَرَیٰ کے معنی ہیں السافلین یعنی زمین کا سب سے نچلا حصہ
خواہ تم علانیہ بات کہو یا چپکے سے، وہ علانیہ اور پوشیدہ سب کو جانتا ہے
عربیت کا ایک اسلوب: فصیح عربی کے اسلوب کے مطابق اس میں مقابل کے الفاظ، بربنائے قرینہ، حذف ہیں۔ اس اسلوب کی وضاحت ہم جگہ جگہ کرتے آئے ہیں۔ اس حذف کو کھول دیجیے تو پوری بات گویا یوں ہو گی، ’وَاِنْ تَجْھَرْ بِالْقَوْلِ اَوْ تُخَافِتْ بِہٖ فَاِنَّہٗ یَعْلَمُ الْجَھْرَ وَالسِّرَّ وَاَخْفٰی‘۔ یعنی خواہ تم بات کو علانیہ کہو یا چپکے سے کہو، خدا علانیہ، پوشیدہ اور پوشیدہ تر سب کو جانتا ہے۔
نبی صلعم کو ایک نئے پہلو سے تسلی: یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دوسرے پہلو سے تسلی دی گئی ہے کہ آپ مطمئن رہیں کہ اپنی مشکلات میں جو کچھ آپ اپنے پروردگار سے کہتے اور جو دعا و مناجات بھی کرتے ہیں خواہ سرًّا یا علانیۃً، اور جو پریشانی بھی آپ کو لاحق ہوتی ہے خواہ وہ زبان پر آئے یا دل کے مخفی گوشوں ہی میں رہے، آپ کا رب علیم و خبیر ہر چیز سے باخبر رہتا ہے۔ مقصود اس حقیقت کے اظہار سے ظاہر ہے کہ اس کا لازم ہے۔ یعنی جب آپ کا پروردگار ہر مخفی سے مخفی بھید سے بھی واقف ہے تو وہ کسی حکمت و مصلحت پر مبنی ہوتی ہے اور اسی میں آپ کے لیے خیر و برکت ہے۔ سورۂ مریم کی آیت ۶۴ ’وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیَّا‘ کے تحت ہم جو کچھ لکھ آئے ہیں مزید تفصیل مطلوب ہو تو ایک نظر اس پر بھی ڈال لیجیے۔
تم چاہے اپنی بات علانیہ کہو (یا چپکے سے کہو، اُس سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے)، اِس لیے کہ وہ تو چپکے سے کہی ہوئی بات، بلکہ اُس سے زیادہ مخفی باتوں کو بھی جانتا ہے
جملے کا یہ حصہ عربیت کے اسلوب پر اصل میں حذف ہے۔
یہ ایک دوسرے پہلو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دل و دماغ کے مخفی گوشوں میں چھپے ہوئے سوالات اور پریشانیاں ہوں یا آپ کی دعا و مناجات میں ظاہر ہونے والی مشکلات اور تمنائیں، اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔ آپ مطمئن رہیں، وہ آپ کی ہر مشکل کو آسان کرے گا اور اِس دعوت کے کسی مرحلے میں بھی آپ اُس کی رہنمائی سے محروم نہیں رہیں گے۔
تم چاہے اپنی بات پکار کر کہو، وہ تو چپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اس سے مخفی بات بھی جانتا ہے۔ 3
یعنی کچھ ضروری نہیں ہے کہ جو ظلم و ستم تم پر اور تمہارے ساتھیوں پر ہو رہا ہے اور جن شرارتوں اور خباثتوں سے تمہیں نیچا دکھانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ان پر تم بآواز بلند ہی فریاد کرو۔ اللہ کو خوب معلوم ہے کہ تم پر کیا کیفیت گزر رہی ہے۔ وہ تمہارے دلوں کی پکار تک سن رہا ہے۔
اگر تو اونچی بات کہے تو وہ تو ہر ایک پوشیدہ، بلکہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر بات کو بھی بخوبی جانتا ہے
یعنی اللہ کا ذکر یا اس سے دعا اونچی آواز میں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر بات کو بھی جانتا ہے یا اَخْفَیٰ کے معنی ہیں کہ اللہ تو ان باتوں کو بھی جانتا ہے جن کو اس نے تقدیر میں لکھ دیا اور ابھی تک لوگوں سے مخفی رکھا ہے۔ یعنی قیامت تک وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا اسے علم ہے۔
اللہ ہی معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ تمام اچھی صفتیں اسی کے لیے ہیں
یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل تفویض کی ہدایت ہے کہ آپ مخالفین کے رویہ سے پریشان اور ان کے پیچھے ہلکان ہونے کے بجائے اپنا معاملہ کلیۃً اپنے رب کے حوالے کیجیے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کے ہوتے آپ کسی کے محتاج نہیں۔
’لَہُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی‘۔ یہ ٹکڑا تسلی و طمانیت کا خزانہ ہے۔ اوپر کی آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو تسلی دی گئی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے اس کی عظمت، اس کی رحمت، اس کی حاکمیت اس کی یکتائی اور اس کے علم کے مقتضیات کی روشنی میں دی گئی ہے لیکن خدا کی صفات اتنی ہی تو نہیں ہیں! وہ تو تمام اچھی اور اعلیٰ صفتوں سے متصف ہے تو ظاہر ہے کہ ان صفات کے مقتضیات بھی حضورؐ کے لیے حالات کے اعتبار سے ظاہر ہوں گے۔ گویا اس ٹکڑے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بشارت دی گئی ہے کہ تمام اچھی صفتیں خدا ہی کے لیے ہیں اور وہ سب آپ کے اوپر سایہ فگن ہیں، آپ ان میں سے جس کا سہارا بھی لیں گے اس کی برکتوں سے متمتع ہوں گے۔ ان کے سوا آپ کسی اور سہارے کے محتاج نہیں ہیں۔
اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ یہاں اسماء سے مراد صفات الٰہی ہیں اس لیے کہ خدا کے تمام نام اس کی صفات ہی کی تعبیر ہیں۔
وہ اللہ ہے، اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ تمام اچھے نام اُسی کے ہیں
یہ کامل تفویض کی ہدایت ہے کہ آپ اپنا معاملہ اُسی کے حوالے کیجیے۔ وہ تنہا معبود ہے۔ اُس کے ہوتے ہوئے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
استاذ امام کے الفاظ میں، یہ ٹکڑا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی اور طمانیت کا خزانہ اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’... اوپر کی آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو تسلی دی گئی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے اُس کی عظمت، اُس کی رحمت، اُس کی حاکمیت ،اُس کی یکتائی اور اُس کے علم کے مقتضیات کی روشنی میں دی گئی ہے، لیکن خدا کی صفات اتنی ہی تو نہیں ہیں۔ وہ تو تمام اچھی اور اعلیٰ صفتوں سے متصف ہے تو ظاہر ہے کہ اُن صفات کے مقتضیات بھی حضور کے لیے حالات کے اعتبار سے ظاہر ہوں گے۔ گویا اِس ٹکڑے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بشارت دی گئی ہے کہ تمام اچھی صفتیں خدا ہی کے لیے ہیں اور وہ سب آپ کے اوپر سایہ فگن ہیں۔ آپ اُن میں سے جس کا سہارا بھی لیں گے، اُس کی برکتوں سے متمتع ہوں گے۔ اُن کے سوا آپ کسی اور سہارے کے محتاج نہیں ہیں۔‘‘(تدبرقرآن ۵/ ۱۷)
وہ اللہ ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں، اس کے لیے بہترین نام ہیں۔
یعنی وہ بہترین صفات کا مالک ہے۔
وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بہترین نام اسی کے ہیں ۔
یعنی معبود وہی ہے جو مذکورہ صفات سے متصف ہے اور بہترین نام بھی اسی کے ہیں جن سے اس کو پکارا جاتا ہے۔ نہ معبود اس کے سوا کوئی اور ہے اور نہ اس کے اسمائے حسنٰی ہی کسی کے ہیں۔ پس اسی کی صحیح معرفت حاصل کر کے اسی سے ڈرایا جائے، اسی سے محبت رکھی جائے، اسی پر ایمان لایا جائے اور اسی کی اطاعت کی جائے۔ تاکہ انسان جب اس کی بارگاہ میں واپس جائے تو وہاں شرمسار نہ ہو بلکہ اس کی رحمت و مغفرت سے شاد کام اور اس کی رضا سے سعادت مند ہو۔
اور کیا موسیٰ ؑ کی سرگزشت تمہارے علم میں آئی ہے
اس امت کے لیے حضرت موسیٰ ؑ کی سرگزشت کی خاص اہمیت: یہ اسلوب بیان قرآن میں تہدید و وعید کے لیے بھی آیا ہے اور ترغیب و تشویق کے لیے بھی۔ یہاں موقع و محل دلیل ہے کہ یہ ترغیب و تشویق کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم نے موسیٰ ؑ کی سرگزشت سنی ہے؟ یہ سرگزشت ہم تمہیں سناتے ہیں۔ اس میں ان تمام سوالوں کا جواب مل جائے گا جو دعوت کے اس مرحلہ میں تمہارے سامنے موجود ہیں، یا آگے کے مراحل میں پیش آنے والے ہیں۔ یہ امر واضح رہے کہ حضرت موسیٰ ؑ اور ان کی قوم کی سرگزشت قرآن میں مختلف اسلوبوں سے جو بار بار بیان ہوئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی امت ہی کی وراثت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو منتقل ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیشتر صاحب شریعت نبی حضرت موسیٰ ؑ ہی تھے۔ ان کو اپنی امت کی تشکیل میں جو زہرہ گداز مراحل پیش آئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی جس جس طرح نصرت فرمائی وہ ساری باتیں آنحضرتؐ کے لیے نہایت سبق آموز تھیں اور بنی اسرائیل نے قدم قدم پر جو ٹھوکریں کھائیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح و تربیت کے لیے جو ہدایات دیں وہ اس امت کے لیے درس عبرت ہیں۔ اس سرگزشت کو پڑھتے ہوئے اس کی اس اہمیت کو نظر انداز نہ کیجیے۔ یہ دوسروں ہی کی نہیں بلکہ اپنی بھی حکایت ہے۔
تمھیں کچھ موسیٰ کی سرگذشت بھی پہنچی ہے؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اوپر صفات الٰہی کے حوالے سے جو تسلی دی گئی ہے، یہ اُسی کے حقائق اب موسیٰ علیہ السلام کی سرگذشت سے سمجھنے کی تشویق ہے۔ مدعا یہ ہے کہ جو کچھ بتایا گیا ہے، اُسے آپ ایک جلیل القدر پیغمبر کی زندگی اور دعوت کی جدوجہد میں بھی دیکھ لیں جو آپ ہی کی طرح خدا کی کتاب اور شریعت کے ساتھ اپنے مخاطبین کے لیے خدا کا فیصلہ لے کر مبعوث ہوئے تھے۔
اور تمہیں کچھ موسیٰ (علیہ السلام) کی خبر بھی پہنچی ہے ؟
n/a
تجھے موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بھی معلوم ہے۔
جب کہ اس نے دیکھا ایک شعلہ تو اس نے اپنے اہل خانہ سے کہا کہ تم لوگ ذرا ٹھہرو، مجھے آگ نظر آئی ہے، تاکہ میں اس میں سے ایک انگارہ لاؤں یا ممکن ہے مجھے وہاں راستہ کا کچھ سراغ مل جائے
حضرت موسیٰ ؑ کی سرگزشت ابتدائے نبوت سے: یہ حضرت موسیٰ ؑ کی سرگزشت کا آغاز اس وقت سے کیا ہے جب ان کو نبوت عطا ہوئی ہے۔ مدین سے واپسی پر جب وہ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ وادئ طور کے پاس پہنچے تو شب کا وقت تھا۔ راستہ کا بھی کچھ اندازہ نہیں ہو رہا تھا اور سردی بھی معلوم ہوتا ہے کہ سخت تھی۔ اتنے میں ایک سمت سے انھیں شعلہ سا نظر آیا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے گھر والوں سے فرمایا کہ تم لوگ یہیں ٹھہرو، مجھے ایک شعلہ سا دکھائی دیا ہے، میں وہاں جاتا ہوں یا تو وہاں سے تمہارے تاپنے کے لیے، جیسا کہ سورۂ قصص میں تصریح ہے، کوئی انگارہ لاؤں گا یا وہاں کچھ لوگ ہوئے تو ان سے راستہ معلوم کر لوں گا اور ہمارا سفر جاری رہ سکے گا۔
ایک شعلۂ مستعجل کا مشاہدہ: ’اٰنَسْتُ‘ کے لفظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ ان کو جو آگ نظر آئی اس کی نوعیت آگ کے کسی جلتے ہوئے الاؤ کی نہیں بلکہ ایک شعلۂ مستعجل کی تھی جو چمکا اور غائب ہو گیا۔ اس لیے یہ لفظ تاڑنے اور بھانپنے کے لیے آتا ہے۔ بس ایک چمک سی نظر آئی اور دفعۃً غائب ہو گئی۔ حضرت موسیٰ ؑ کے سوا اس کو کسی نے شاید دیکھا بھی نہیں۔ اگر بھڑکتی ہوئی آگ ہوتی تو حضرت موسیٰ ؑ یوں کہتے کہ دیکھو وہ سامنے آگ جل رہی ہے، میں یا تو وہاں سے راستہ معلوم کرتا ہوں اور اگر وہاں کوئی نہ ملا تو پھر تاپنے کا کچھ سامان کرتا ہوں تاکہ سردی سے بچاؤ کا کچھ سامان ہو سکے۔
جب اُس نے (دور) ایک شعلہ دیکھا تو اپنے گھر والوں سے کہا: تم لوگ ذرا ٹھیرو، مجھے آگ سی دکھائی دی ہے۔ (میں وہاں جاتا ہوں) تاکہ اُس میں سے تمھارے لیے ایک آدھ انگارا لے آؤں یا آگ پر (بیٹھے ہوئے لوگوں سے) مجھے راستے کا کچھ پتا مل جائے
یہ اُس وقت کا قصہ ہے جب موسیٰ علیہ السلام چند سال مدین میں گزارنے کے بعد اپنی بیوی کو لے کر مصر جا رہے تھے۔ قرآن میں دوسری جگہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ کے ہاتھوں ایک مصری ہلاک ہو گیا تھا اور وہ اِس اندیشے سے کہ اُن کے ساتھ انصاف کا معاملہ نہیں ہو گا، مصر سے بھاگ کر مدین میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ وہاں اُن کی شادی ہوئی اور اپنے خسر کے ساتھ قراردادہ مدت پوری کرنے کے بعد اب اُن کے لیے ممکن ہو گیا تھا کہ وہ واپس اپنے لوگوں کے پاس چلے جائیں۔
اصل میں لفظ ’اٰنَسْتُ‘استعمال ہوا ہے۔ اِس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اُنھوں نے آگ کا کوئی جلتا ہوا الاؤ نہیں، بلکہ ایک شعلہ سا دیکھا تھا جو اچانک چمکا اور غائب ہو گیا اور اُن کے سوا شاید کسی اور کو نظر بھی نہیں آیا۔
دوسری جگہ تصریح ہے کہ وہ یہ انگارا اِس لیے لانا چاہتے تھے کہ اپنے اہل و عیال کو رات بھر گرم رکھنے کا کچھ سامان کر سکیں۔ اِس سے معلوم ہوا کہ یہ سردی کا زمانہ تھا اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ جب وہ وادی طور کے پاس پہنچے تو رات ہو چکی تھی اور اُنھیں راستے کا بھی کچھ اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔
جب کہ اس نے ایک آگ دیکھی اور اپنے گھر والوں سے کہا کہ ” ذرا ٹھہرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے۔ شاید کہ تمہارے لیے ایک آدھ انگارا لے آؤں، یا اس آگ پر مجھے﴿راستے کے متعلق﴾ کوئی رہنمائی مل جائے۔ ”
یہ اس وقت کا قصہ ہے جب حضرت موسیٰ چند سال مدین میں جلا وطنی کی زندگی گزار نے کے بعد اپنی بیوی کو (جن سے مدین ہی میں شادی ہوئی تھی) لے کر مصر کی طرف واپس جا رہے تھے۔ اس سے پہلے کی سرگزشت سورة قَصص میں بیان ہوئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ کے ہاتھوں ایک مصری ہلاک ہوگیا تھا اور اس پر انہیں اپنی گرفتاری کا اندیشہ لاحق ہوگیا تھا تو وہ مصر سے بھاگ کر مدین میں پناہ گزیں ہوئے تھے۔
جبکہ اس نے آگ دیکھ کر اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم ذرا سی دیر ٹھہر جاؤ مجھے آگ دکھائی دی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ میں اس کا کوئی انگارا تمہارے پاس لاؤں یا آگ کے پاس سے راستے کی اطلاع پاؤں ۔
یہ اس وقت کا واقعہ ہے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے اپنی بیوی کے ہمراہ (جو ایک قول کے مطابق حضرت شعیب (علیہ السلام) کی دختر نیک اختر تھیں) اپنی والدہ کی طرف سے واپس جا رہے تھے، اندھیری رات تھی اور راستہ بھی نامعلوم۔ بعض مفسرین کے بقول بیوی کی زچگی کا وقت بالکل قریب تھا اور انھیں حرارت کی ضرورت تھی۔ یا سردی کی وجہ سے گرمی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اتنے میں دور سے انھیں آگ کے شعلے بلند ہوتے ہوئے نظر آئے۔ گھر والوں سے یعنی بیوی سے (یا بعض کہتے ہیں خادم اور بچہ بھی تھا اس لئے جمع کا لفظ استعمال فرمایا) کہا تم یہاں ٹھہرو ! شاید میں آگ کا کوئی انگارا وہاں سے لے آؤں یا کم از کم وہاں سے راستے کی نشان دہی ہوجائے۔
امین احسن اصلاحی
یہ سورۂ طٰہٰ ہےیہ سورۂ طٰہٰ ہے۔
یہ حروف مقطعات میں سے ہے۔ ان حروف پر مفصل بحث سورۂ بقرہ کے شروع میں دیکھیے۔