یہ سورۂ ’یٰسٓ‘ ہے
اِس نام کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے متعلق ہم نے اپنا نقطۂ نظر سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر دیا ہے۔
یٰسٓ
n/a
یٰسِین
بعض نے اس کے معنی یا رجل یا انسان کے کئے ہیں۔ بعض نے اسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام اور بعض نے اسے اللہ کے اسمائے حسنٰی میں سے بتلایا ہے۔ لیکن یہ سب اقوال بلا دلیل ہیں۔ یہ بھی ان حروف مقطعات میں سے ہی ہے۔ جن کا معنی و مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
شاہد ہے پرحکمت قرآن
قرآن کے اعجاز میں اصلی دخل اس کی حکمت کو ہے: ’و‘ قسم کے مفہوم میں ہے اور قسم عربی میں، جیسا کہ ہمارے استاذ مولانا فراہیؒ نے اپنی کتاب ’’الامعان فی اقسام القرآن‘‘ میں وضاحت فرمائی ہے، شہادت کے لیے آتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ پر حکمت قرآن جو تم لوگوں کو سنا رہے ہو، خود اس بات کی شہادت کے لیے کافی ہے کہ تم رسولوں کے زمرے سے تعلق رکھنے والے ہو۔ رسول کے سوا کوئی دوسرا اس طرح کا حکیمانہ اور معجز کلام پیش کرنے پر قادر نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے اعجاز میں اصلی دخل اس کی حکمت، اس کے فلسفہ کو ہے۔ اس کی زبان کی بلاغت و جزالت مزید برآں ہے۔
یہ سراسر حکمت قرآن گواہی دیتا ہے
n/a
قسم ہے قرآن حکیم کی
ابن عباس، عکرمہ، ضحاک، حسن بصری اور سفیان بن عُیَیْنہ کا قول ہے کہ اس کے معنی ہیں ” ” اے انسان ” یا ‘’ اے شخص “۔ اور بعض مفسرین نے اسے ” یا سید “ کا مخفف بھی قرار دیا ہے۔ اس تاویل کی رو سے ان الفاظ کے مخاطب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔
قسم ہے قرآن با حکمت کی
یا قرآن محکم کی، جو نظم و معنی کے لحاظ سے محکم یعنی پختہ ہے۔ واؤ قسم کے لئے ہے۔ آگے جواب قسم ہے۔
کہ تم رسولوں میں سے ہو
قرآن کے اعجاز میں اصلی دخل اس کی حکمت کو ہے: ’و‘ قسم کے مفہوم میں ہے اور قسم عربی میں، جیسا کہ ہمارے استاذ مولانا فراہیؒ نے اپنی کتاب ’’الامعان فی اقسام القرآن‘‘ میں وضاحت فرمائی ہے، شہادت کے لیے آتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ پر حکمت قرآن جو تم لوگوں کو سنا رہے ہو، خود اس بات کی شہادت کے لیے کافی ہے کہ تم رسولوں کے زمرے سے تعلق رکھنے والے ہو۔ رسول کے سوا کوئی دوسرا اس طرح کا حکیمانہ اور معجز کلام پیش کرنے پر قادر نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے اعجاز میں اصلی دخل اس کی حکمت، اس کے فلسفہ کو ہے۔ اس کی زبان کی بلاغت و جزالت مزید برآں ہے۔
کہ یقیناً تم رسولوں میں سے ہو
اِس لیے کہ ایسا حکیمانہ اور معجز کلام صرف خدا کا رسول ہی پیش کر سکتا ہے جس میں خدا بولتا ہوا نظر آئے، جو اُن حقائق کو واضح کرے جن کا واضح ہونا انسانیت کی شدید ضرورت ہے اور وہ کسی انسان کے کلام سے کبھی واضح نہیں ہوئے، جو اُن معاملات میں رہنمائی کرے جن میں رہنمائی کے لیے کوئی دوسرا ذریعہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ ایک ایسا کلام جس کے حق میں وجدان گواہی دے، علم و عقل کے مسلمات جس کی تصدیق کریں، جو ویران دلوں کو اِس طرح سیراب کر دے، جس طرح مردہ زمین کو بارش سیراب کرتی ہے، جس میں وہی شان، وہی حسن بیان، وہی فصاحت و بلاغت اور وہی تاثیر ہو جو قرآن کا پڑھنے والا، اگراُس کی زبان سے واقف ہو تو اُس کے لفظ لفظ میں محسوس کرتا ہے۔
کہ تم یقینا رسولوں میں سے ہو،
اس طرح کلام کا آغاز کرنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی نبوت میں کوئی شک تھا اور آپ کو یقین دلانے کے لیے اللہ تعالیٰ کو یہ بات فرمانے کی ضرورت پیش آئی۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت کفار قریش پوری شدت کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کر رہے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے کسی تمہید کے بغیر تقریر کا آغاز ہی اس فقرے سے فرمایا کہ ” تم یقیناً رسولوں میں سے ہو ” یعنی وہ لوگ سخت غلط کار ہیں جو تمہاری نبوت کا انکار کرتے ہیں۔ پھر اس بات پر قرآن کی قسم کھائی گئی ہے، اور قرآن کی صفت میں لفظ ” حکیم ” استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے نبی ہونے کا کھلا ہوا ثبوت یہ قرآن ہے جو سراسر حکمت سے لبریز ہے۔ یہ چیز خود شہادت دے رہی ہے کہ جو شخص ایسا حکیمانہ کلام پیش کر رہا ہے وہ یقیناً خدا کا رسول ہے۔ کوئی انسان ایسا کلام تصنیف کرلینے پر قادر نہیں ہے۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو جانتے ہیں وہ ہرگز اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتے کہ یہ کلام آپ خود گھڑ گھڑ کر لا رہے ہیں، یا کسی دوسرے انسان سے سیکھ سیکھ کر سنا رہے ہیں۔ (اس مضمون کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، صفحات 272 تا 274 ۔ 285 تا 286 ۔ 641 تا 643 جلد سوم، صفحات 317 تا 318 ۔ 476 ۔ 602 ۔ 639 تا 642 ۔ 665 تا 670 ۔ 711 تا 713 ۔ 724 تا 728 ۔ 730 تا 732)
کہ بیشک آپ پیغمبروں میں سے ہیں
مشرکین نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت میں شک کرتے تھے، اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا انکار کرتے اور کہتے تھے (وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا ۭ قُلْ كَفٰى باللّٰهِ شَهِيْدًۢا بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ ۙ وَمَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ 43 ) 13 ۔ الرعد :43) ' تو تو پیغمبر ہی نہیں ' اللہ نے ان کے جواب میں قرآن حکیم کی قسم کھا کر کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پیغمبروں میں سے ہیں۔ اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شرف و فضل و اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی رسول کی رسالت کے لئے قسم نہیں کھائی یہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امتیازات اور خصائص میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے اثبات کے لئے قسم کھائی۔
ایک نہایت سیدھی راہ پر
قرآن سے اعراض فطرت سے انحراف کا نتیجہ ہے: یہ خبر کے بعد دوسری خبر ہے اور اس کے بغیر حرف عطف کے آنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قرآن حکیم بیک وقت دونوں باتوں کا شاہد ہے۔ اس بات کا بھی کہ تم اللہ کے رسولوں میں سے ہو اور اس بات کا بھی کہ تم بالکل سیدھی راہ پر ہو اور لوگوں کو سیدھی راہ پر چلنے کی دعوت دے رہے ہو۔ تنکیر یہاں تفخیم شان کے لیے ہے جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ راہ عقل و فطرت اور خدا کی بتائی ہوئی نہایت سیدھی راہ ہے۔ جو لوگ یہ سیدھی راہ اختیار کرنے سے گریز کر رہے ہیں انھوں نے اپنی فطرت بگاڑ لی ہے اور اپنی عقل سے کام لینا چھوڑ دیا ہے اس وجہ سے انھیں سیدھی چیز ٹیڑھی نظر آ رہی ہے۔
ایک نہایت سیدھی راہ پر
اصل الفاظ ہیں: ’عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ‘۔ یہ خبر کے بعد دوسری خبر ہے جو حرف عطف کے بغیر آ گئی ہے، اِس لیے کہ قرآن کی شہادت یہاں بہ یک وقت دونوں باتوں پر پیش کی گئی ہے، اِس پر بھی کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اِس پر بھی کہ آپ صراط مستقیم پر ہیں۔ ہم نے ترجمے میں اِسے ملحوظ رکھا ہے۔
سیدھے راستے پر ہو،
n/a
سیدھے راستے پر ہیں
یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پیغمبروں کے راستے پر ہیں جو پہلے گزر چکے ہیں۔ یا ایسے راستے پر ہیں جو سیدھا اور مطلوب منزل (جنت) تک پہنچانے والا۔
جس کو نہایت اہتمام سے اتارا ہے خدائے عزیز و رحیم نے
قرآن انذار اور بشارت ہے: ’تَنزِیْل‘ فعل محذوف سے منصوب ہے۔ اس کے معنی کی وضاحت دوسرے مقام میں ہم کر چکے ہیں کہ یہ کسی چیز کو درجہ بدرجہ نہایت اہتمام کے ساتھ اتارنے کے لیے بھی آتا ہے۔ یہ قرآن کے ایک دوسرے پہلو کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اس کو خدائے عزیز و رحیم نے نہایت اہتمام و تدریج کے ساتھ اتارا ہے کہ لوگ اس پر غور کریں، اس کو سمجھیں اور اس سے ’صراط مستقیم‘ کی رہنمائی حاصل کریں۔ یہاں اللہ تعالیٰ کی دو صفتوں کا حوالہ ہے۔ ایک ’عزیز‘ دوسری ’رحیم‘۔ ان میں ایک صفت انذار کے لیے ہے اور دوسری بشارت کے لیے۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اس کی تکذیب کریں گے وہ یاد رکھیں کہ یہ کسی سائل کی درخواست نہیں بلکہ ایک عزیز و مقتدر کا فرمان واجب الاذعان ہے جو سرکشی کرنے والوں کو لازماً سزا دے گا۔ ساتھ ہی وہ رحیم بھی ہے اور اپنی اس رحمت ہی کے لیے اس نے یہ کتاب اتاری ہے تو جو اللہ کے بندے اس قرآن کی قدر کریں گے ان کو وہ اپنی بے پایاں رحمتوں سے نوازے گا۔
یہ پورے اہتمام کے ساتھ اُس ہستی کی طرف سے اتارا گیا ہے جو زبردست ہے، جس کی شفقت ابدی ہے
آیت میں لفظ ’تَنْزِیْل‘ کا نصب فعل محذوف سے ہے اور یہ جس ہستی کی طرف سے ہے، اُس کی دو صفتوں کا حوالہ دیا گیا ہے: ایک ’عَزِیْز‘، دوسری ’رَحِیْم‘۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اِن میں ایک صفت انذار کے لیے ہے اور دوسری بشارت کے لیے۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اِس کی تکذیب کریں گے، وہ یاد رکھیں کہ یہ کسی سائل کی درخواست نہیں، بلکہ ایک عزیز و مقتدر کا فرمان واجب الاذعان ہے جو سرکشی کرنے والوں کو لازماً سزا دے گا۔ ساتھ ہی وہ رحیم بھی ہے اور اپنی اِس رحمت ہی کے لیے اُس نے یہ کتاب اتاری ہے تو جو اللہ کے بندے اِس قرآن کی قدر کریں گے، اُن کو وہ اپنی بے پایاں رحمتوں سے نوازے گا۔‘‘(تدبر قرآن۶/ ۴۰۱)
(اور یہ قرآن) غالب اور رحیم ہستی کا نازل کردہ ہے۔
یہاں قرآن کے نازل کرنے والے کی دو صفتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ غالب اور زبردست ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ رحیم ہے۔ پہلی صفت بیان کرنے سے مقصود اس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ یہ قرآن کسی بےزور ناصح کی نصیحت نہیں ہے جسے تم نظر انداز کر دو تو تمہارا کچھ نہ بگڑے، بلکہ یہ اس مالک کائنات کا فرمان ہے جو سب پر غالب ہے، جس کے فیصلوں کو نافذ ہونے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی، اور جس کی پکڑ سے بچ جانے کی قدرت کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اور دوسری صفت بیان کرنے سے مقصود یہ احساس دلانا ہے کہ یہ سراسر اس کی مہربانی ہے کہ اس نے تمہاری ہدایت و رہنمائی کے لیے اپنا رسول بھیجا اور یہ کتاب عظیم نازل کی تاکہ تم گمراہیوں سے بچ کر اس راہ راست پر چل سکو جس سے تمہیں دنیا و آخرت کی کامیابیاں حاصل ہوں۔
یہ قرآن اللہ زبردست مہربان کی طرف سے نازل کیا گیا ہے
یعنی اس اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے جو عزیز ہے یعنی اس کا انکار اور اس کے رسول کو جھوٹا کرنے والے سے انتقام لینے پر قادر ہے رحیم ہے۔ یعنی جو اس پر ایمان لائے گا اور اس کا بندہ بن کر رہے گا اس کے لئے نہایت مہربان۔
کہ تم ان لوگوں کو آگاہ کر دو جن کے اگلوں کو آگاہ نہی کیا گیا پس وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں
بنی اسماعیل کو تنبیہ: یہ قرآن کے اتارنے کا مقصد بیان ہوا ہے کہ اللہ نے اس کو اس اہتمام سے اس لیے اتارا ہے کہ جن کے اندر تم سے پہلے کسی رسول کی بعثت نہیں ہوئی تھی اور وہ غفلت میں پڑے ہوئے تھے۔ ان کو تم زندگی کے انجام سے اچھی طرح آگاہ کر دو۔ یہ اشارہ بنی اسماعیل کی طرف ہے اور یہ اس عظیم احسان کا بیان ہے جو حضرت ابراہیمؑ کی دعا اور حضرات انبیاء علیہم السلام کی پیشین گوئیوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے امیوں پر کیا۔ اس میں ان کے لیے ترغیب کے ساتھ یہ ترہیب بھی ہے کہ اگر انھوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی تو اپنے لیے سب سے بڑی سعادت کی جگہ سب سے بڑی شقاوت کا سامان کریں گے۔ یہی مضمون دوسرے مقامات میں اس طرح بیان ہوا ہے:
’لِتُنذِرَ قَوْماً مَّا أَتَاہُم مِّن نَّذِیْرٍ مِّن قَبْلِکَ‘ (القصص: ۴۶)
(تاکہ تم ان لوگوں کو آگاہ کر دو جن کے پاس تم سے پہلے کوئی نذیر نہیں آیا)۔
اِس لیے اتارا گیا ہے کہ تم اُن لوگوں کو خبردار کرو جن کے اگلوں کو خبردار نہیں کیا گیا تھا، لہٰذا غفلت میں پڑے ہوئے ہیں
یہ اشارہ بنی اسمٰعیل کی طرف ہے جن کے پاس پچھلے ڈھائی ہزار سال میں کوئی رسول نہیں آیا تھا۔
تاکہ تم خبردار کرو ایک ایسی قوم کو جس کے باپ دادا خبردار نہ کیے گئے تھے اور اس وجہ سے وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
اس آیت کے دو ترجمے ممکن ہیں۔ ایک وہ جو اوپر متن میں کیا گیا ہے۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” تم ڈراؤ ایک قوم کے لوگوں کو اسی بات سے جس سے ان کے باپ دادا ڈرائے گئے تھے، کیونکہ وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں “۔ پہلا مطلب اگر لیا جائے تو باپ دادا سے مراد زمانۂ قریب کے باپ دادا ہوں گے، کیونکہ زمانۂ بعید میں تو عرب کی سر زمین میں متعدد انبیاء آچکے تھے اور دوسرا مطلب اختیار کرنے کی صورت میں مراد یہ ہوگی کہ قدیم زمانے میں جو پیغام انبیاء کے ذریعہ سے اس قوم کے آباؤ اجداد کے پاس آیا تھا اس کی اب پھر تجدید کرو، کیونکہ یہ لوگ اسے فراموش کر گئے ہیں۔ اس لحاظ سے دونوں ترجموں میں درحقیقت کوئی تضاد نہیں ہے اور معنی کے لحاظ سے دونوں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔
اس مقام پر یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قوم کے اسلاف پر جو زمانہ ایسا گزرا تھا جس میں کوئی خبردار کرنے والا ان کے پاس نہیں آیا، اس زمانے میں اپنی گمراہی کے وہ کس طرح ذمہ دار ہو سکتے تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کوئی نبی دنیا میں بھیجتا ہے تو اس کی تعلیم و ہدایت کے اثرات دور دور تک پھیلتے ہیں اور نسلاً بعد نسلٍ چلتے رہتے ہیں۔ یہ آثار جب تک باقی رہیں اور نبی کے پیروؤں میں جب تک ایسے لوگ اٹھتے رہیں جو ہدایت کی شمع روشن کرنے والے ہوں، اس وقت تک زمانے کو ہدایت سے خالی نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اور جب اس نبی کی تعلیم کے اثرات بالکل مٹ جائیں یا ان میں مکمل تحریف ہوجائے تو دوسرے نبی کی بعثت ناگزیر ہوجاتی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے عرب میں حضرت ابراہیم و اسماعیل اور حضرت شعیب اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کی تعلیم کے اثرات ہر طرف پھیلے ہوئے تھے اور وقتاً فوقتاً ایسے لوگ اس قوم میں اٹھتے رہے تھے، یا باہر سے آتے رہے تھے جو ان اثرات کو تازہ کرتے رہتے تھے۔ جب یہ اثرات مٹنے کے قریب ہوگئے اور اصل تعلیم میں بھی تحریف ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا اور ایسا انتظام فرمایا کہ آپ کی ہدایت کے آثار نہ مٹ سکتے ہیں اور نہ محرف ہو سکتے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، سورة سبا، حاشیہ نمبر 5)
تاکہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے باپ دادا نہیں ڈرائے گئے تھے، سو (اسی وجہ سے) یہ غافل ہیں
یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول اس لئے بنایا ہے اور یہ کتاب اس لئے نازل کی ہے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قوم کو ڈرائیں جن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا، اس لئے ایک مدت سے یہ لوگ دین حق سے بیخبر ہیں۔ یہ مضمون پہلے بھی کئی جگہ گزر چکا ہے کہ عربوں میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے براہ راست کوئی نبی نہیں آیا۔ یہاں بھی اس چیز کو بیان کیا گیا ہے۔
ان میں سے بہتوں پر ہماری بات پوری ہو چکی ہے تو وہ ایمان لانے والے نہیں بنیں گے
سرکشوں سے اعراض کی ہدایت: ’قول‘ سے اشارہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی طرف ہے جو اس نے ابلیس کے جواب میں اس وقت فرمایا تھا جب اس نے یہ دھمکی دی تھی کہ میں ذریت آدم کی اکثریت کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ
’لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ‘
(میں ایسے تمام جنوں اور انسانوں سے جو تیری پیروی کریں گے دوزخ کو بھر دوں گا)
اسی قول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ تمہارا فرض انذار کرنا ہے وہ کرتے رہو لیکن یہ توقع نہ رکھو کہ ان میں سے ہر شخص تمہاری دعوت قبول کرے گا بلکہ ان میں بہتیرے ایسے ہیں جن پر ہماری بات صادق آ چکی کہ وہ ابلیس کی پیروی کے جرم میں جہنم کے ایندھن بنیں گے۔ اس طرح کے لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ ان کے درپے اور ان کے لیے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
اُن میں سے بہتوں پر ہماری بات پوری ہو چکی ہے، سو وہ ایمان نہیں لائیں گے
یعنی وہ بات جو ہم نے ابلیس کے جواب میں کہی تھی کہ جو تیری پیروی کریں گے، خواہ جن ہوں یا انسان، اُن سے میں جہنم کو بھر دوں گا۔ قرآن میں نقل ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات اُس وقت فرمائی تھی، جب ابلیس نے یہ دھمکی دی تھی کہ میں آدم کے بیٹوں کی اکثریت کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا۔
ان میں سے اکثر لوگ فیصلہ عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں، اسے لیے وہ ایمان نہیں لاتے۔
یہ ان لوگوں کو ذکر ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے مقابلے میں ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لے رہے تھے اور جنہوں نے طے کرلیا تھا کہ آپ کی بات بہرحال مان کر نہیں دینی ہے۔ ان کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ ” یہ لوگ فیصلۂ عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں اس لیے یہ ایمان نہیں لاتے ” اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ نصیحت پر کان نہیں دھرتے اور خدا کی طرف سے پیغمبروں کے ذریعہ اتمام حجت ہوجانے پر بھی انکار اور حق دشمنی کی روش ہی اختیار کیے چلے جاتے ہیں ان پر خود ان کی اپنی شامت اعمال مسلط کردی جاتی ہے اور پھر انہیں توفیق ایمان نصیب نہیں ہوتی۔ اسی مضمون کو آگے چل کر اس فقرے میں کھول دیا گیا ہے کہ ” تم تو اسی شخص کو خبردار کرسکتے ہو جو نصیحت کی پیروی کرے اور بےدیکھے خدائے رحمان سے ڈرے۔ “
ان میں سے اکثر لوگوں پر بات ثابت ہوچکی ہے سو یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے
جیسے ابو جہل، عتبہ، شیبہ وغیرہ۔ بات ثابت ہونے کا مطلب، اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ ' میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا ' (وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدٰىهَا وَلٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّيْ لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ ) 32 ۔ السجدہ :13) شیطان سے بھی خطاب کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا تھا ' میں جہنم کو تجھ سے اور تیرے پیروکاروں سے بھر دونگا۔ یہ اس وجہ سے نہیں کہ اللہ نے جبرا ان کو ایمان سے محروم رکھا کیونکہ جبر کی صورت میں تو وہ عذاب کے مستحق قرار نہ پاتے۔
ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں جو ان کی ٹھوڑیوں تک ہیں پس ان کے سر اٹھے رہ گئے
مستکبرین کے استکبار کی تصویر: یہ ان ایمان نہ لانے والوں کے استکبار کی تصویر ہے کہ گویا ان کی گردنوں میں ایسے طوق پڑے ہوئے ہیں جو ان کی ٹھوڑیوں تک پہنچتے ہیں جس کے سبب سے ان کے سر اس طرح اٹھے ہوئے رہ گئے ہیں کہ نہ وہ نیچے کی طرف جھک سکتے ہیں اور نہ اوپر ہی کی طرف اٹھ سکتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ وہ زمین کی نشانیاں دیکھ سکتے اور نہ آسمان کے عجائب ہی پر نگاہ ڈال سکتے۔ ان کی اس حالت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے کہ ہم نے ان کو ایسا بنا دیا ہے۔ اس کی وجہ، جیسا کہ ہم جگہ جگہ اشارہ کرتے آ رہے ہیں، یہ ہے کہ کسی فرد یا گروہ کی یہ حالت اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق ہوتی ہے۔ جو لوگ حق سے انحراف و اعراض کی یہ روش دیدہ و دانستہ اختیار کر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے آنکھیں بند کر کے زندگی گزارتے ہیں ان کے اوپر اللہ ان کی خواہشیں اور ان کے اعمال اسی طرح مسلط کر دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر کوئی تعلیم و تذکیر ان پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ اسی حقیقت کی طرف ’کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوبِہِمۡ مَّا کَانُوۡا یَکْسِبُوۡنَ‘ (المطففین: ۱۴) میں اشارہ فرمایا ہے۔
’مقمح‘ اصل میں اس اونٹ کو کہتے ہیں جس کا سر پیچھے کی جانب اس طرح باندھ دیا گیا ہو کہ اس کی گردن ایک خاص حد سے نہ نیچے ہو سکے نہ اوپر۔ بالکل یہی حال اس شخص کا ہوتا ہے جس کے گلے میں آہنی طوق ڈال دیا جائے۔ وہ بھی اپنا سر نہ نیچے کر سکتا ہے نہ اوپر بلکہ ایک خاص زاویہ پر اس کی گردن تنی رہتی ہے۔ یہ، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، مستکبرین کی تصویر ہے۔ اس طرح کے لوگ اپنے اوپر نیچے اور دہنے بائیں کی تمام نشانیوں سے بے خبر ہی رہتے ہیں۔ ان کو اپنی ’انا‘ کے سوا اور کسی چیز کی طرف کبھی توجہ نہیں ہوتی۔
(وہ ایسے متکبر ہیں کہ) اُن کی گردنوں میں ہم نے (گویا) طوق ڈال دیے ہیں اور وہ ٹھوڑیوں تک پہنچے ہوئے ہیں، سو اُن کے سر اٹھے رہ گئے ہیں
یعنی گردنیں ایسی تنی ہوئی ہیں کہ اوپر نیچے اور دائیں بائیں کوئی حقیقت دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ مستکبرین کی تصویر ہے۔ اِسی طرح کے لوگ ہیں جو اعتراف حق کی سعادت سے ہمیشہ کے لیے محروم کر دیے جاتے ہیں اور یہ اُس سنت الٰہی کے مطابق ہوتا ہے جو ہدایت و ضلالت کے باب میں مقرر کی گئی ہے۔ اِن کی اِس حالت کو اللہ تعالیٰ نے اِسی بنا پر اپنی طرف منسوب فرمایا ہے۔
ہم ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں جن سے وہ ٹھوڑیوں تک جکڑے گئے ہیں، اس لیے وہ سر اٹھائے کھڑے ہیں۔
اس آیت میں ” طوق ” سے مراد ان کی اپنی ہٹ دھرمی ہے جو ان کے لیے قبول حق میں مانع ہو رہی تھی۔ ” ٹھوڑیوں تک جکڑے جانے ” اور سر اٹھائے کھڑے ہونے ” سے مراد وہ گردن کی اکڑ ہے جو تکبر اور نخوت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ ہم نے ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو ان کی گردن کا طوق بنا دیا ہے، اور جس کبر و نخوت میں یہ مبتلا ہیں اس کی وجہ سے ان کی گردنیں اس طرح اکڑ گئی ہیں کہ اب خواہ کوئی روشن حقیقت بھی ان کے سامنے آجائے، یہ اس کی طرف التفات کر کے نہ دیں گے۔
ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں پھر وہ ٹھوڑیوں تک ہیں، جس سے انکے سر اوپر الٹ گئے ہیں
جس کی وجہ سے وہ ادھر ادھر دیکھ سکتے ہیں۔ نہ سر جھکا سکتے ہیں، بلکہ وہ سر اوپر اٹھائے اور نگاہیں نیچے کئے ہوئے ہیں۔ یہ ان کے عدم قبول حق کی اور عدم انفاق کی تمثیل ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ان کی سزا جہنم کی کیفیت کا بیان ہو۔ (ایسر التفاسیر)
اور ہم نے ان کے آگے سے بھی ایک روک کھڑی کر دی ہے اور ان کے پیچھے سے بھی ایک روک کھڑی کر دی ہے۔ اس طرح ہم نے ان کو ڈھانک دیا ہے پس ان کو سجھائی نہیں دے رہا ہے
یہ اوپر والے مضمون ہی کی وضاحت ہے کہ اس طرح ہم نے ان کے آگے اور پیچھے دونوں طرف سے اوٹ کھڑی کر دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے جس کے سبب سے انھیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے۔ ان کی اسی حالت پر سورۂ سبا میں اظہار تعجب فرمایا ہے:
’أَفَلَمْ یَرَوْا إِلَی مَا بَیْْنَ أَیْْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ‘ (۹)
(کیا ان لوگوں نے ان کے آگے اور پیچھے جو آسمان و زمین ہیں ان پر نگاہ نہیں ڈالی؟)
اس طرح کے مستکبرین کے متعلق یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ یہ اپنی پچھلی روایات اور اپنے مستقبل کے مطامع کے غلام ہوتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں ان کی راہ میں اس طرح روک بن جاتی ہیں کہ ان سے ہٹ کر وہ کوئی چیز دیکھنے کے قابل رہ ہی نہیں جاتے۔
ہم نے اُن کے آگے بھی ایک دیوار کھڑی کر دی ہے اور اُن کے پیچھے بھی ایک دیوار کھڑی کر دی ہے۔ اِس طرح ہم نے اُن کو ڈھانک دیا ہے تو اُنھیں اب کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے
n/a
ہم نے ایک دیوار ان کے آگے کھڑی کردی ہے اور ایک دیوار ان کے پیچھے۔ ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے، انہیں اب کچھ نہیں سوجھتا۔
ایک دیوار آگے اور ایک پیچھے کھڑی کردینے سے مراد یہ ہے کہ اسی ہٹ دھرمی اور استکبار کا فطری نتیجہ یہ ہوا ہے کہ یہ لوگ نہ پچھلی تاریخ سے کوئی سبق لیتے ہیں، اور نہ مستقبل کے نتائج پر کبھی غور کرتے ہیں۔ ان کے تعصبات نے ان کو ہر طرف سے اس طرح ڈھانک لیا ہے اور ان کی غلط فہمیوں نے ان کی آنکھوں پر ایسے پردے ڈال دیے ہیں کہ انہیں وہ کھلے کھلے حقائق نظر نہیں آتے جو ہر سلیم الطبع اور بےتعصب انسان کو نظر آ رہے ہیں۔
اور ہم نے ایک آڑ ان کے سامنے کردی اور ایک آڑ ان کے پیچھے کردی جس سے ہم نے ان کو ڈھانک دیا سو وہ نہیں دیکھ سکتے۔
یعنی دنیا کی زندگی ان کے لئے مزین کردی گئی، یہ گویا ان کے سامنے کی آڑ ہے، جس کی وجہ سے وہ لذائذ دنیا کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتے اور یہی چیز ان کے اور ایمان کے درمیان مانع اور حجاب ہے اور آخرت کا تصور ان کے ذہنوں میں ناممکن الواقع کردیا گیا، یہ گویا ان کے پیچھے کی آڑ ہے جس کی وجہ سے وہ توبہ کرتے ہیں نہ نصیحت حاصل کرتے ہیں کیونکہ آخرت کا کوئی خوف ہی ان کے دلوں میں نہیں ہے۔
یا ان کی آنکھوں کو ڈھانک دیا یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عداوت اور اس کی دعوت حق سے نفرت نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ گی، یا انہیں اندھا کردیا ہے جس سے وہ دیکھ نہیں سکتے یہ ان کے حال کی دوسری تمثیل ہے۔
اور ان کے لیے یکساں ہے، ان کو ڈراؤ یا نہ ڈراؤ، وہ ایمان نہیں لانے کے
ظاہر ہے کہ اس طرح کے لوگ ایک سخت قسم کی عقلی و اخلاقی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اس وجہ سے ان کو ڈرانا یا نہ ڈرانا اصل مقصد کے لحاظ سے بالکل بے سود ہوتا ہے۔ یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں بنتے۔ ان کو اگر انذار کیا جاتا ہے تو محض اتمام حجت کے لیے کہ قیامت کے دن یہ کوئی عذر نہ پیش کر سکیں۔ سورۂ بقرہ کے شروع میں ختم قلوب پر جو بحث گزر چکی ہے اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔
اُن کے لیے برابر ہے، تم اُنھیں خبردار کرو یا نہ کرو، وہ نہیں مانیں گے
n/a
ان کے لیے یکساں ہے، تم انہیں خبردار کرو یا نہ کرو، یہ نہ مانیں گے۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس حالت میں تبلیغ کرنا بےکار ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری تبلیغ عام ہر طرح کے انسانوں تک پہنچتی ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ اور کچھ دوسرے لوگ وہ ہیں جن کا ذکر آگے کی آیت میں آ رہا ہے۔ پہلی قسم کے لوگوں سے جب سابقہ پیش آئے اور تم دیکھ لو کہ وہ انکار و استکبار اور عناد و مخالفت پر جمے ہوئے ہیں تو ان کے پیچھے نہ پڑو۔ مگر ان کی روش سے دل شکستہ و مایوس ہو کر کام چھوڑ بھی نہ بیٹھو، کیونکہ تمہیں نہیں معلوم کہ اسی ہجوم خلق کے درمیان وہ خدا کے بندے کہاں ہیں جو نصیحت قبول کرنے والے اور خدا سے ڈر کر راہ راست پر آجانے والے ہیں۔ تمہاری تبلیغ کا اصل مقصود اسی دوسری قسم کے انسانوں کو تلاش کرنا اور انہیں چھانٹ کر نکال لینا ہے۔ ہٹ دھرموں کو چھوڑتے جاؤ، اور اس قیمتی متاع کو سمیٹتے چلے جاؤ۔
اور آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں دونوں برابر ہیں، یہ ایمان نہیں لائیں گے۔
یعنی جو اپنے کرتوتوں کی وجہ سے گمراہی کے اس مقام تک پہنچ جائیں، ان کے لئے اندازہ بےفائدہ رہتا ہے۔
امین احسن اصلاحی
یہ سورۂ یٰسٓ ہے
یہ حروف مقطعات میں سے ہے۔
یہ جس سورہ میں بھی آئے ہیں بالکل شروع میں اس طرح آئے ہیں جس طرح کتابوں، فصلوں اور ابواب کے شروع میں ان کے نام آیا کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان سورتوں کے نام ہیں۔ قرآن نے جگہ جگہ ذٰلک اور تِلۡکَ کے ذریعہ سے ان کی طرف اشارہ کر کے ان کے نام ہونے کو اور زیادہ واضح کر دیا ہے۔ حدیثوں سے بھی ان کا نام ہی ہونا ثابت ہوتا ہے۔
جو سورتیں ان ناموں سے موسوم ہیں اگرچہ ان میں سے سب اپنے انہی ناموں سے مشہور نہیں ہوئیں بلکہ بعض دوسرے ناموں سے مشہور ہوئیں، لیکن ان میں سے کچھ اپنے انہی ناموں سے مشہور بھی ہیں۔ مثلاً طٰہٰ، یٰس، ق اور ن وغیرہ۔
ان ناموں کے معانی کے بارے میں کوئی قطعی بات کہنا بڑا مشکل ہے اس وجہ سے ممکن ہے یہاں کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ قرآن کا تو دعویٰ یہ ہے کہ وہ ایک بالکل واضح کتاب ہے، اس میں کوئی چیز بھی چیستاں یا معمے کی قسم کی نہیں ہے، پھر اس نے سورتوں کے نام ایسے کیوں رکھ دیے ہیں جن کے معنی کسی کو بھی نہیں معلوم؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک ان حروف کا تعلق ہے، یہ اہل عرب کے لئے کوئی بیگانہ چیز نہیں تھے بلکہ وہ ان کے استعمال سے اچھی طرح واقف تھے۔ اس واقفیت کے بعد قرآن کی سورتوں کا ان حروف سے موسوم ہونا کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے قرآن کے ایک واضح کتاب ہونے پر کوئی حرف آتا ہو۔ البتہ یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے حروف سے نام بنا لینا عربوں کے مذاق کے مطابق تھا بھی یا نہیں تو اس چیز کے مذاق عرب کے مطابق ہونے کی سب سے بڑی شہادت تو یہی ہے کہ قرآن نے نام رکھنے کے اس طریقہ کو اختیار کیا۔ اگر نام رکھنے کا یہ طریقہ کوئی ایسا طریقہ ہوتا جس سے اہل عرب بالکل ہی نامانوس ہوتے تو وہ اس پر ضرور ناک بھوں چڑھاتے اور ان حروف کی آڑ لے کر کہتے کہ جس کتاب کی سورتوں کے نام تک کسی کی سمجھ میں نہیں آ سکتے اس کے ایک کتاب مبین ہونے کے دعوے کو کون تسلیم کر سکتا ہے۔
قرآن پر اہل عرب نے بہت سے اعتراضات کئے اور ان کے یہ سارے اعتراض قرآن نے نقل بھی کئے ہیں لیکن ان کے اس طرح کے کسی اعتراض کا کوئی ذکر نہیں کیا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان ناموں میں ان کے لئے کوئی اجنبیت نہیں تھی۔
علاوہ بریں جن لوگوں کی نظر اہل عرب کی روایات اور ان کے لٹریچر پر ہے وہ جانتے ہیں کہ اہل عرب نہ صرف یہ کہ اس طرح کے ناموں سے نامانوس نہیں تھے بلکہ وہ خود اشخاص، چیزوں، گھوڑوں، جھنڈوں، تلواروں حتیٰ کہ قصائد اور خطبات تک کے نام اسی سے ملتے جلتے رکھتے تھے۔ یہ نام مفرد حروف پر بھی ہوتے تھے اور مرکب بھی ہوتے تھے۔ ان میں یہ اہتمام بھی ضروری نہیں تھا کہ اسم اور مسمٰی میں کوئی معنوی مناسبت پہلے سے موجود ہو بلکہ یہ نام ہی بتاتا تھا کہ یہ نام اس مسمٰی کے لئے وضع ہوا ہے۔
اور یہ بالکل ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ جب ایک شے کے متعلق یہ معلوم ہو گیا کہ یہ نام ہے تو پھر اس کے معنی کا سوال سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا کیونکہ نام سے اصل مقصود مسمٰی کا اس نام کے ساتھ خاص ہوجانا ہے نہ کہ اس کے معنی۔ کم ازکم فہم قرآن کے نقطۂ نظر سے ان ناموں کے معانی کی تحقیق کی تو کوئی خاص اہمیت ہے نہیں۔ بس اتنی بات ہے کہ چونکہ یہ نام اللہ تعالیٰ کے رکھے ہوئے ہیں اس وجہ سے آدمی کو یہ خیال ہوتا ہے کہ ضرور یہ کسی نہ کسی مناسبت کی بنا پر رکھے گئے ہوں گے۔ یہ خیال فطری طور پر طبیعت میں ایک جستجو پیدا کر دیتا ہے۔ اسی جستجو کی بنا پر ہمارے بہت سے پچھلے علماء نے ان ناموں پر غور کیا اور ان کے معنی معلوم کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ ان کی جستجو سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا لیکن ہمارے نزدیک ان کا یہ کام بجائے خود غلط نہیں تھا اور اگر ہم بھی ان پر غور کریں گے تو ہمارا یہ کام بھی غلط نہیں ہو گا۔ اگر اس کوشش سے کوئِی حقیقت واضح ہوئی تو اس سے ہمارے علم میں اضافہ ہو گا اور اگر کوئی بات نہ مل سکی تو اس کو ہم اپنے علم کی کوتاہی اور قرآن کے اتھاہ ہونے پر محمول کریں گے۔ یہ رائے بہرحال نہیں قائم کریں گے کہ یہ نام ہی بے معنی ہیں۔
اپنے علم کی کمی اور قرآن کے اتھاہ ہونے کا یہ احساس بجائے خود ایک بہت بڑا علم ہے۔ اس احساس سے علم و معرفت کی بہت سی بند راہیں کھلتی ہیں۔ اگر قرآن کا پہلا ہی حرف اس عظیم انکشاف کے لئے کلید بن جائے تو یہ بھی قرآن کے بہت سے معجزوں میں سے ایک معجزہ ہو گا۔ یہ اسی کتاب کا کمال ہے کہ اس کے جس حرف کا راز کسی پر نہ کھل سکا اس کی پیدا کردہ کاوش ہزاروں سربستہ اسرار سے پردہ اٹھانے کے لئے دلیل راہ بنی۔
ان حروف پر ہمارے پچھلے علماء نے جو رائیں ظاہر کی ہیں ہمارے نزدیک وہ تو کسی مضبوط بنیاد پر مبنی نہیں ہیں اس وجہ سے ان کا ذکر کرنا کچھ مفید نہیں ہوگا۔ البتہ استاذ امام مولانا حمید الدین فراہی رحمة اللہ علیہ کی رائے اجمالاً یہاں پیش کرتا ہوں۔ اس سے اصل مسئلہ اگرچہ حل نہیں ہوتا لیکن اس کے حل کے لئے ایک راہ کھلتی ضرور نظر آتی ہے۔ کیا عجب کہ مولانا رحمة اللہ علیہ نے جو سراغ دیا ہے دوسرے اس کی رہنمائی سے کچھ مفید نشانات راہ اور معلوم کر لیں اور اس طرح درجہ بدرجہ تحقیق کے قدم کچھ اور آگے بڑھ جائیں۔
جو لوگ عربی رسم الخط کی تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ عربی زبان کے حروف عبرانی سے لئے گئے ہیں اور عبرانی کے یہ حروف ان حروف سے ماخوذ ہیں جو عرب قدیم میں رائج تھے۔ عرب قدیم کے ان حروف کے متعلق استاذ امام رحمة اللہ علیہ کی تحقیق یہ ہے کہ یہ انگریزی اور ہندی کے حروف کی طرف صرف آواز ہی نہیں بتاتے تھے بلکہ یہ چینی زبان کے حروف کی طرف معانی اور اشیاء پر بھی دلیل ہوتے تھے اور جن معانی یا اشیاء پر وہ دلیل ہوتے تھے عموماً ان ہی کی صورت و ہئیت پر لکھے بھی جاتے تھے۔ مولانا کی تحقیق یہ ہے کہ یہی حروف ہیں جو قدیم مصریوں نے اخذ کئے اور اپنے تصورات کے مطابق ان میں ترمیم و اصلاح کر کے ان کو اس خط تمثالی کی شکل دی جس کے آثار اہرام مصر کے کتبات میں موجود ہیں۔
ان حروف کے معانی کا علم اب اگرچہ مٹ چکا ہے تاہم بعض حروف کے معنی اب بھی معلوم ہیں اور ان کے لکھنے کے ڈھنگ میں بھی ان کی قدیم شکل کی کچھ نہ کچھ جھلک پائی جاتی ہے۔ مثلاً “الف” کے متعلق معلوم ہے کہ وہ گائے کے معنی بتاتا تھا اور گائے کے سر کی صورت ہی پر لکھا جاتا ہے۔ “ب” کو عبرانی میں بَیت کہتے بھی ہیں اور اس کے معنی بھی “بیت” (گھر) کے ہیں۔ “ج” کا عبرانی تلفظ جمیل ہے جس کے معنی جمل (اونٹ) کے ہیں۔ “ط” سانپ کے معنی میں آتا تھا اور لکھا بھی کچھ سانپ ہی کی شکل پر جاتا تھا۔ “م” پانی کی لہر پر دلیل ہوتا ہے اور اس کی شکل بھی لہر سے ملتی جلتی بنائی جاتی تھی۔
مولانا اپنے نظریہ کی تائید میں سورہ “ن” کو پیش کرتے ہیں۔ حرف “نون” اب بھی اپنے قدیم معنی ہی میں بولا جاتا ہے۔ اس کے معنی مچھلی کے ہیں اور جو سورہ اس نام سے موسوم ہوئی ہے اس میں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر صاحب الحوت، مچھلی والے، کے نام سے آیا ہے۔ مولانا اس نام کو پیش کر کے فرماتے ہیں کہ اس سے ذہن قدرتی طور پر اس طرف جاتا ہے کہ اس سورہ کا نام “نون” (ن) اسی وجہ سے رکھا گیا ہے کہ اس میں صاحب الحوت، حضرت یونس علیہ السلام، کا واقعہ بیان ہوا ہے جن کو مچھلی نے نگل لیا تھا۔ پھر کیا عجب ہے کہ بعض دوسری سورتوں کے شروع میں جو حروف آئے ہیں وہ بھی اپنے قدیم معانی اور سورتوں کے مضامین کے درمیان کسی مناسبت ہی کی بنا پر آئے ہوں۔
قران مجید کی بعض اور سورتوں کے ناموں سے بھی مولانا کے اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے مثلاً حرف “ط” کے معنی، جیسا کے میں نے اوپر بیان کیا ہے، سانپ کے تھے اور اس کے لکھنے کی ہئیت بھی سانپ کی ہئیت سے ملتی جلتی ہوتی تھی۔ اب قرآن میں سورہ طٰہٰ کو دیکھئے جو “ط” سے شروع ہوتی ہے۔ اس میں ایک مختصر تمہید کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی لٹھیا کے سانپ بن جانے کا قصہ بیان ہوتا ہے۔ اسی طرح طسم، طس وغیرہ بھی “ط” سے شروع ہوتی ہیں اور ان میں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لٹھیا کے سانپ کی شکل اختیار کر لینے کا معجزہ مذکور ہے۔
“الف” کے متعلق ہم بیان کر چکے ہیں کہ یہ گائے کے سر کی ہئیت پر لکھا بھی جاتا تھا اور گائے کے معنی بھی بتاتا تھا۔ اس کے دوسرے معنی اللہ واحد کے ہوتے تھے۔ اب قرآن مجید میں دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ سورہ بقرہ میں جس کا نام الف سے شروع ہوتا ہے، گائے کے ذبح کا قصہ بیان ہوا ہے۔ دوسری سورتیں جن کے نام الف سے شروع ہوئے ہیں توحید کے مضمون میں مشترک نظر آتی ہیں۔ یہ مضمون ان میں خاص اہتمام کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ ان ناموں کا یہ پہلو بھی خاص طور پر قابل لحاظ ہے کہ جن سورتوں کے نام ملتے جلتے سے ہیں ان کے مضامین بھی ملتے جلتے ہیں بلکہ بعض سورتوں میں تو اسلوب بیان تک ملتا جلتا ہے۔
میں نے مولانا کا یہ نظریہ، جیسا کہ عرض کر چکا ہوں، محض اس خیال سے پیش کیا ہے کہ اس سے حروف مقطعات پر غور کرنے کے لئے ایک علمی راہ کھلتی ہے۔ میرے نزدیک اس کی حیثیت ابھی ایک نظریہ سے زیادہ نہیں ہے۔ جب تک تمام حروف کے معانی کی تحقیق ہو کر ہر پہلو سے ان ناموں اور ان سے موسوم سورتوں کی مناسبت واضح نہ ہوجائے اس وقت تک اس پر ایک نظریہ سے زیادہ اعتماد کر لینا صحیح نہیں ہوگا۔ یہ محض علوم قرآن کے قدردانوں کے لئے ایک اشارہ ہے، جو لوگ مزید تحقیق و جستجو کی ہمت رکھتے ہیں وہ اس راہ میں قسمت آزمائی کریں۔ شاید اللہ تعالیٰ اس راہ سے یہ مشکل آسان کر دے۔
یہ اس سورہ کا قرآنی نام ہے۔ بعض لوگوں نے اس کے معنی ’یٰٓاَیُّھَا الْاِنْسَانُ‘ کے لیے ہیں لیکن یہ بات بالکل بے دلیل ہے۔