یہ سورہ ’الر‘ ہے۔ یہ اُس کتاب کی آیتیں ہیں جو سراسر حکمت ہے
اِس نام کے کیا معنی ہیں؟ اِس کے متعلق ہم نے اپنا نقطۂ نظر سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔
یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اِس کتاب کی صداقت کا معیار خود اِس کی حکمت ہے۔ یہ اِس کے لیے کسی خارجی شہادت کی محتاج نہیں ہے۔
ا ل ر، یہ اُس کتاب کی آیات ہیں جو حکمت و دانش سے لبریز ہے۔
اس تمہیدی فقرے میں ایک لطیف تنبیہ مضمر ہے، نادان لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ پیغمبر قرآن کے نام سے جو کلام ان کو سنا رہا ہے وہ محض زبان کی جادوگری ہے، شاعرانہ پرواز تخیل ہے اور کچھ کاہنوں کی طرح عالم بالا کی گفتگو ہے۔ اس پر انہیں متنبہ کیا جا رہا ہے کہ جو کچھ تم گمان کر رہے ہو یہ وہ چیز نہیں ہے۔ یہ تو کتاب حکیم کی آیات ہیں۔ ان کی طرف توجہ نہ کرو گے تو حکمت سے محروم ہوجاؤ گے۔
الر یہ پُر حکمت کتاب کی آیتیں ہیں
اَلْحَکِیْمِ ، کتاب یعنی قرآن مجید کی صفت ہے۔ اس کے ایک تو وہی معنی ہیں جو ترجمے میں اختیار کئے گئے ہیں۔ اس کے اور بھی کئی معنی کئے گئے ہیں مثلاً اَلْمُحْکَمْ ، یعنی حلال و حرام اور حدود و احکام میں محکم (مضبوط) ہے۔ حکیم بمعنی حاکم۔ یعنی اختلافات میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے والی کتاب، یعنی اللہ تعالیٰ نے اس میں عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کئے ہیں۔
کیا لوگوں کو اس بات پر حیرانی ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص پر وحی کی کہ لوگوں کو ہوشیار کر دو اور اہل ایمان کو بشارت پہنچا دو کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑا مرتبہ ہے۔ کافروں نے کہا، بے شک یہ ایک کھلا ہوا جادوگر ہے
اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان: ’اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَباً ........ الایۃ‘۔ ’النَّاس‘ سے مراد، قرینہ دلیل ہے کہ یہاں قریش ہیں۔ یعنی جب یہ کتاب بجائے خود حجت و برہان ہے تو مجرد یہ بات اس کے انکار کی کیا دلیل ہوئی کہ اس کی وحی انہی میں سے ایک شخص پر آئی؟ اپنے اندر کے کسی شخص پر اس وحی کا آنا کوئی انکار و استعجاب کی چیز نہیں بلکہ یہ سوچیں تو یہ اللہ کا ان پر احسان عظیم ہے کہ اس نے ان پر انہی کے اندر کے ایک ایسے شخص کے ذریعہ سے یہ کتاب اتاری جس کے ماضی و حاضر اور جس کے کردار و اخلاق سے وہ اچھی طرح آگاہ بھی ہیں اور جس کے امین و راست باز ہونے کے وہ معترف بھی رہے ہیں؟ کیا یہ بات بہتر ہوتی کہ کوئی غیر ان پر اس حق کی گواہی دیتا یا یہ بہتر ہے کہ اللہ نے انہی کے ایک بہترین فرد کو اس حق کا گواہ بنایا اور اس طرح گویا انہی کی زبان اور انہی کے ضمیر نے ان پر حق کی حجت تمام کی۔ یہ بات بھی کسی پہلو سے معقول نہ ہوتی کہ اس کام کے لیے کوئی فرشتہ یا جن منتخب کیا جاتا۔ انسانوں کے لیے معلم و مرشد اور نمونہ و مثال انسان ہو سکتا ہے نہ کہ فرشتے اور جن۔
کتاب اور حامل کتاب کا اصل پیغام: ’اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا‘۔ یہ اس کتاب یا حامل کتاب کا اصل پیغام نقل ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ پیغام بھی کوئی استعجاب یا انکار کی چیز نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے۔ یہ دنیا کی زندگی یوں ہی ختم ہو جانے والی نہیں ہے بلکہ اس کے بعد ایک ایسا دن آنے والا ہے جس میں سب کو خدا کی طرف لوٹنا ہے اور اس دن وہ لوگ خدا کے ہاں عزت و سرفرازی کا مقام پائیں گے جو اس کتاب پر ایمان لائیں گے اور جو لوگ اس کو جھٹلائیں گے وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں پڑیں گے۔ اس حقیقت کے اظہار سے اگر قریش کے متکبرین کے دل کو چوٹ لگتی ہے تو لگے اور وہ حیران ہوتے ہیں تو حیران ہوں لیکن جو حقیقت ہے وہ اس وجہ سے غلط نہیں ہو جائے گی کہ اس سے کسی گروہ کے پندار پر ضرب پڑتی ہے۔
’قَدَمَ صِدْقٍ‘ کا مفہوم: ’قَدَمَ صِدْقٍ‘ میں ’صدق‘ کا لفظ، جیسا کہ دوسرے مقام میں ہم واضح کر چکے ہیں، رسوخ، استحکام اور تمکن پر دلیل ہے اس وجہ سے ’قَدَمَ صِدْق‘ کا مفہوم عزت کا مقام، مرتبۂ بلند، اونچی پائگاہ اور لازوال سرفرازی ہوگا۔ اس آیت میں ایمان لانے والوں کے لیے جو بشارت ہے وہ تو واضح الفاظ میں مذکور ہے لیکن انذار کا پہلو مبہم چھوڑ دیا گیا ہے اس کی وجہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ اس گروپ کی تمام سورتوں میں نمایاں پہلو اہل ایمان کے لیے بشارت ہی کا ہے۔ کفار کے انجام کا پہلو ان میں اصلاً نہیں بلکہ ضمناً اور تبعاً بیان ہوا ہے۔
کفار کے استعجاب و انکار کی تعبیر: ’قَالَ الْکٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ‘ یہ کفار کے استعجاب و انکار کی تعبیر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب اس پر حکمت کتاب کی آیتیں ان کو سنائی جاتی ہیں تو بجائے اس کے کہ اس کی قدر کریں اور اس پر ایمان لائیں اس کے لانے والے کو یہ کھلا ہوا جادوگر قرار دیتے ہیں۔ یعنی اس کتاب کے زور، اس کے اثر اور اس کی فصاحت و بلاغت کا لوہا تو مانتے ہیں لیکن ان سب چیزوں کو محض الفاظ اور سجع و قافیہ کی صناعی اور پیغمبر کی فصاحت و بلاغت کی شعبدہ بازی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور اپنے عوام کو یہ باور کراتے ہیں کہ اس کتاب اور اس کے لانے والے کے کلام میں جو تاثیر اور کشش محسوس کرتے ہو یہ نہ سمجھو کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ خدا کی طرف سے آئی ہے اور اس میں حکمت کا خزانہ ہے بلکہ جس طرح ایک شعبدہ باز اپنی شعبدہ بازی سے ایک شے کو کچھ سے کچھ بنا کر دکھاتا ہے اسی طرح یہ شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) الفاظ کی شعبدہ گری کا ماہر ہے اور اپنی بات اس طرح پیش کرتا ہے کہ سادہ لوگ اس کے کلام سے مسحور ہو جاتے ہیں۔
انبیاؑء کو ساحر و کاہن کہنے کا ایک خاص پہلو: یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام کو کفار جو ساحر قرار دیتے رہے ہیں تو صرف ان کے معجزات کی اہمیت گھٹانے کے لیے نہیں بلکہ یہی حربہ وہ ان کے کلام کو بے وقعت ٹھہرانے کے لیے بھی استعمال کرتے، جب دیکھتے کہ ان کے اندر کے سلیم الفطرت لوگ نبی کے پیش کیے ہوئے کلام سے متاثر ہو رہے ہیں تو یہ اشغلہ چھوڑتے کہ یہ تو محض الفاظ کی شعبدہ بازی اور زبان کی جادوگری ہے، اپنے آپ کو اس فریب سے بچاؤ۔ خود قرآن کو سحر کہنے میں بھی یہی مقصد ان کے پیش نظر ہوتا۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کاہن بھی کہتے تھے۔ اس سے بھی ان کا مقصد یہی ہوتا کہ اپنے عوام کی توجہ قرآن اور پیغمبر سے ہٹائیں کہ یہ کلام کوئی مافوق چیز اور اس کا پیش کرنے والا کوئی مافوق ہستی نہیں ہے۔ جس طرح ہمارے کاہن سجع اور قافیہ کے ساتھ مرصع اسلوب میں اپنا کلام پیش کرتے ہیں اور جس طرح کاہنوں کے کلام میں مستقبل سے متعلق کچھ پیشین گوئیوں کی جھلک ہوتی ہے اسی طرح کی جھلک ان کے کلام میں بھی ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ یہ ہماری جانی پہچانی ہوئی چیزیں ہیں۔ ان کو آسمانی اور خدائی مرتبہ دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
کیا اِن لوگوں کو اِس پر حیرانی ہو گئی کہ ہم نے اِنھی میں سے ایک شخص پر وحی کی ہے کہ لوگوں کو خبردار کرو اور جو مان لیں، اُنھیں خوش خبری پہنچا دوکہ اُن کے لیے اُن کے پروردگار کے پاس بڑا مرتبہ ہے۔ (اِس حقیقت کو سمجھنے کے بجاے) اِن منکروں نے کہہ دیا کہ یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے
یعنی اِس میں انکار و استعجاب اور حیرانی کی کیا بات ہے؟ خدا نے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے اِنھی کے اندر سے ایک شخص کو منتخب کیا ہے تو یہی قرین عقل ہے۔ یہ اُس کے ماضی و حاضر اور اخلاق و کردار سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اُس کی راست بازی اور امانت و دیانت کو جانتے ہیں۔ پھر یہی نہیں، اِن کا معلم و مرشد اور اِن کے لیے نمونہ و مثال بھی کوئی جن یا فرشتہ نہیں، بلکہ انسان ہی ہو سکتا تھا۔ چنانچہ خدا نے اِنھی کے ایک بہترین فرد کا انتخاب کیا ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں یہ گویا اِنھی کی زبان اور اِنھی کے ضمیر کی گواہی ہے جو اِن کے آگے پیش کی جا رہی ہے۔
اصل میں ’قَدَمَ صِدْقٍ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی ایسا مرتبہ جس میں عزت، بلندی اور لازوال سرفرازی ہو۔ یہ معنی لفظ ’صِدْق‘سے پیدا ہوئے ہیں جو رسوخ و استحکام اور تمکن پر دلیل ہوتا ہے۔
یعنی جب دیکھا کہ اِس کی بات لوگوں کو متوجہ کر رہی ہے تو کہہ دیا کہ یہ شخص الفاظ کی جادوگری کا ماہر ہے۔ اِس کو کوئی مافوق ہستی اور اِس کے کلام کو کوئی مافوق چیز سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ محض فصاحت و بلاغت اور حسن بیان کا کمال ہے۔ اِس سے زیادہ اِس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
کیا لوگوں کے لیے یہ ایک عجیب بات ہو گئی کہ ہم نے خود اُنہی میں سے ایک آدمی کو اشارہ کیا کہ (غفلت میں پڑے ہوئے) لوگوں کو چونکا دے اور جو مان لیں ان کو خوشخبری دیدے کہ ان کے لیے اُن کے رب کے پاس سچی عزت و سرفرازی ہے؟ (کیا یہی وہ بات ہے جس پر) منکرین نے کہا کہ یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے؟
یعنی آخر اس میں تعجب کی بات کیا ہے ؟ انسانوں کو ہوشیار کرنے کے لیے انسان نہ مقرر کیا جاتا تو کیا فرشتہ یا جن یا حیوان مقرر کیا جاتا ؟ اور اگر انسان حقیقت سے غافل ہو کر غلط طریقے سے زندگی بسر کر رہے ہوں تو تعجب کی بات یہ ہے کہ ان کا خالق و پروردگار انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے یا یہ کہ وہ ان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے کوئی انتظام کرے ؟ اور اگر خدا کی طرف سے کوئی ہدایت آئے تو عزت و سرفرازی ان کے لیے ہونی چاہیے جو اسے مان لیں یا ان کے جو اسے رد کردیں ؟ پس تعجب کرنے والوں کو سوچنا تو چاہیے کہ آخر وہ بات کیا ہے جس پر وہ تعجب کر رہے ہیں۔
یعنی جادوگر کی پھبتی تو انہوں نے اس پر کس دی مگر یہ نہ سوچا کہ وہ چسپاں بھی ہوتی ہے یا نہیں۔ صرف یہ بات کہ کوئی شخص اعلی درجہ کی خطابت سے کام لے کر دلوں اور دماغوں کو مسخر کر رہا ہے، اس پر یہ الزام عائد کردینے کے لیے تو کافی نہیں ہو سکتی کہ وہ جادوگری کر رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس خطابت میں وہ بات کیا کہتا ہے، کس غرض کے لیے قوت تقریر کو استعمال کر رہا ہے، اور جو اثرات اس کی تقریر سے ایمان لانے والوں کی زندگی پر مترتب ہو رہے ہیں وہ کس نوعیت کے ہیں جو خطیب کسی ناجائز غرض کے لیے جادو بیانی کی طاقت استعمال کرتا ہے وہ تو ایک منہ پھٹ بےلگام، غیر ذمہ دار مقرر ہوتا ہے۔ حق اور صداقت اور انصاف سے آزاد ہو کر ہر وہ بات کہہ ڈالتا ہے جو بس سننے والوں کو متاثر کر دے، خواہ بجائے خود کتنی ہی جھوٹی، مبالغہ آمیز اور غیر منصفانہ ہو۔ اس کی باتوں میں حکمت کے بجائے عوام فریبی ہوتی ہے کسی منظم فکر کے بجائے تناقض اور ناہمواری ہوتی ہے۔ اعتدال کے بجائے بےاعتدالی ہوا کرتی ہے وہ تو محض اپنا سکہ جمانے کے لیے زبان درازی کرتا ہے یا پھر لوگوں کو لڑانے اور ایک گروہ کو دوسرے کے مقابلہ میں ابھارنے کے لیے خطابت کی شراب پلاتا ہے۔ اس کے اثر سے لوگوں میں نہ کوئی اخلاقی بلندی پیدا ہوتی ہے، نہ ان کی زندگیوں میں کوئی مفید تغیر رونما ہوتا ہے اور نہ کوئی صالح فکر یا صالح عملی حالت وجود میں آتی ہے، بلکہ لوگ پہلے سے بدتر صفات کا مظاہرے کرنے لگتے ہیں۔ مگر یہاں تم دیکھ رہے ہو کہ پیغمبر جو کلام پیش کر رہا ہے اس میں حکمت ہے، ایک متناسب نظام فکر ہے، غایت درجے کا اعتدال اور حق و صداقت کا سخت التزام ہے، لفظ جچا تلا اور بات بات کانٹے کی تول پوری ہے۔ اس کی خطابت میں تم خلق خدا کی اصلاح کے سوا کسی دوسری غرض کی نشاندہی نہیں کرسکتے۔ جو کچھ وہ کہتا ہے اس میں اس کی اپنی ذاتی یا خاندانی یا قومی یا کسی قسم کی دنیوی غرض کا کوئی شائبہ نہیں پایا جاتا۔ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ لوگ جس غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اس کے برے نتائج سے ان کو خبردار کرے اور انہیں اس طریقے کی طرف بلائیں جس میں ان کا اپنا بھلا ہے۔ پھر اس کی تقریر سے جو اثرات مترتب ہوئے ہیں وہ بھی جادوگروں کے اثرات سے بالکل مختلف ہیں۔ یہاں جس نے بھی اس کا اثر قبول کیا ہے اس کی زندگی سنور گئی ہے، وہ پہلے سے زیادہ بہتر اخلاق کا انسان بن گیا ہے اور اس کے سارے طرز عمل میں خیر و صلاح کی شان نمایاں ہوگئی ہے۔ اب تم خود ہی سوچ لو، کیا جادوگر ایسی ہی باتیں کرتے ہیں اور ان کا جادو ایسے ہی نتائج دکھایا کرتا ہے ؟
کیا ان لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ہم نے ان میں سے ایک شخص کے پاس وحی بھیج دی کہ سب آدمیوں کو ڈرائیے اور جو ایمان لے آئے ان کو یہ خوشخبری سنائیے کہ ان کے رب کے پاس ان کو پورا اجر و مرتبہ ملے گا، کافروں نے کہا کہ یہ شخص تو بلاشبہ صریح جادوگر ہے ۔
استفہام انکار تعجب کے لئے ہے، جس میں توبیخ کا پہلو بھی شامل ہے یعنی اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں سے ہی ایک آدمی کو وحی و رسالت کے لئے چن لیا، کیونکہ ان کے ہم جنس ہونے کی وجہ سے وہ صحیح معنوں میں انسان کی رہنمائی کرسکتا ہے۔ اگر وہ کسی اور جنس سے ہوتا تو فرشتہ یا جن ہوتا اور وہ دونوں ہی صورتوں میں رسالت کا اصل مقصد فوت ہوجاتا، اس لئے کہ انسان اس سے مانوس ہونے کی بجائے وحشت محسوس کرتا دوسرے، ان کے لئے اس کو دیکھنا بھی ممکن نہ ہوتا اور اگر ہم کسی جن یا فرشتے کا انسانی قالب میں بھیجتے تو پھر وہی اعتراض آتا کہ یہ تو ہماری طرح کا ہی انسان ہے۔ اس لئے ان کے اس تعجب میں کوئی معقولیت نہیں ہے۔
(قَدَمَ صِدْقٍ ) کا مطلب، بلند مرتبہ، اجر حسن اور وہ اعمال صالحہ ہیں جو ایک مومن آگے بھیجتا ہے۔
کافروں کو جب انکار کے لئے بات نہیں سوجھتی تو یہ کہہ کر چھٹکارہ حاصل کرلیتے ہیں کہ یہ تو جادوگر ہے۔ نعوذ با للہ۔
بے شک تمہارا رب وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ ادوار میں پیدا کیا، پھر وہ معاملات کا انتظام سنبھالے عرش پر متمکن ہوا۔ اس کے ہاں اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارشی نہیں۔ یہی اللہ تمہارا رب ہے تو اسی کی بندگی کرو، کیا تم سوچتے نہیں!
مذکورہ بالا انذار و بشارت کی دلیل: اوپر والے ٹکڑے میں جو انذار و بشارت ہے یہ اسی کی دلیل بیان ہو رہی ہے اور مقدمات کی ترتیب اس طرح ہے کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور جس کا خالق ہونا تمہیں خود بھی تسلیم ہے، وہی تمہارا رب اور آقا و مولیٰ ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ خالق تو کوئی اور ہو، آقا و مولیٰ کوئی اور بن جائے؟ اگر تم نے کچھ اور رب بنا کر ان سے کچھ امیدیں باندھ رکھی ہیں تو یہ محض تمہاری حماقت ہے جو عقل و فطرت اور خود تمہارے اپنے مسلمہ کے خلاف ہے۔ پھر یہ کائنات کسی اتفاقی حادثے کے طور پر ظہور میں نہیں آ گئی ہے بلکہ یہ خدائی دنوں کے حساب سے چھ دنوں یا بالفاظ دیگر چھ ادوار میں درجہ بدرجہ ارتقا پذیر ہوئی ہے۔ یہ تدریج و ترتیب اور یہ ارتقا خود شاہد ہے کہ نہ اس کا ظہور کوئی اتفاقی حادثہ ہے نہ یہ کسی کھلنڈرے کا کھیل تماشہ ہے بلکہ یہ نہایت اہتمام سے پیدا کیا ہوا ایک باغایت و بامقصد کارخانہ ہے اور اس کی مقصدیت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان جو اس کائنات میں خلیفہ کی حیثیت رکھتا ہے یوں ہی شتر بے مہار نہ چھوڑ دیا جائے بلکہ اس کے سامنے ایک ایسا دن آئے جس میں وہ لوگ پورے انصاف کے ساتھ اپنے اعمال کا صلہ پائیں جنھوں نے خالق کائنات کی پسند کے مطابق زندگی بسر کی اور وہ لوگ اپنے جرائم کی سزا بھگتیں جنھوں نے اس دنیا کو کھل تماشہ سمجھا اور ساری زندگی بطالت میں گزاری۔
خدا عرش حکومت پر متمکن ہے: ’ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ‘۔ یعنی یہ نہ سمجھو کہ خدا دنیا کو پیدا کر کے کسی گوشے میں ایک خاموش علۃ العلل بن کر بیٹھ رہا ہے اور اس دنیا کا سارا انتظام و انصرام اس نے دوسروں کے حوالے کر دیا ہے بلکہ وہ خود عرش حکومت پر متمکن اور متمکن ہی نہیں بلکہ تمام معاملات کا انتظام فرما رہا ہے۔ زبور میں یہی حقیقت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے:
’’تو نے تخت پر بیٹھ کر صداقت سے انصاف کیا۔‘‘ (۹: ۴)
خدا کے ہاں کوئی سفارش اس کے اذن کے بغیر نہیں ہو گی: ’مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْ بَعْدِ اِذْنِہٖ‘ یعنی کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ خدا کے اس انصاف سے کسی کی سعی و سفارش کے ذریعے سے وہ اپنے آپ کو بچا لے جائے گا۔ خدا کے ہاں کوئی بھی نہ اس کے اذن کے بغیر سفارش کے لیے زبان کھول سکے گا اور نہ کوئی سفارش باطل کو حق یا حق کو باطل بنا سکے گی۔ اللہ کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔
’ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ‘۔ یعنی یہی اللہ جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے، جو عرش حکومت پر متمکن ہو کر عدل و انصاف کے ساتھ فرمانروائی کر رہا ہے، جس کے ہاں کوئی بڑے سے بڑا سفارشی بھی، اس کے اذن کے بغیر، کسی کی سفارش کی جرأت نہ کر سکے گا، وہی اللہ تمہارا رب ہے تو اپنے اسی رب کی بندگی کرو۔ اس کے سوا تم نے اور رب کہاں سے گھڑ لیے، تم اپنے مانے ہوئے مقدمات و مسلمات کو کس طرح نظرانداز کر جاتے ہو۔
(لوگو)، حقیقت یہ ہے کہ تمھارا پروردگار وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر معاملات کا نظم سنبھالے ہوئے اپنے عرش پر قائم ہو گیا۔ اُس کی اجازت کے بغیر کوئی (اُس کے حضور میں) سفارش کرنے والا نہیں ہے۔ تمھارا پروردگار وہی اللہ ہے، لہٰذا اُسی کی بندگی کرو۔ کیا تم سوچتے نہیں ہو؟
یہاں سے آگے اُس انذار و بشارت کی دلیل بیان ہو رہی ہے جس سے سورہ کی ابتدا ہوئی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...(اِس میں) مقدمات کی ترتیب اِس طرح ہے کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور جس کا خالق ہونا تمھیں خود بھی تسلیم ہے، وہی تمھارا رب اور آقا و مولیٰ ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ خالق تو کوئی اور ہو، آقا و مولیٰ کوئی اور بن جائے؟ اگر تم نے کچھ اور رب بنا کر اُن سے کچھ امیدیں باندھ رکھی ہیں تو یہ محض تمھاری حماقت ہے جو عقل و فطرت اور خود تمھارے اپنے مسلمہ کے خلاف ہے۔ پھر یہ کائنات کسی اتفاقی حادثے کے طور پر ظہور میں نہیں آگئی ہے، بلکہ یہ خدائی دنوں کے حساب سے چھ دنوں یا بالفاظ دیگر چھ ادوار میں درجہ بدرجہ ارتقا پذیر ہوئی ہے۔ یہ تدریج و ترتیب اور یہ ارتقا خود شاہد ہے کہ نہ اِس کا ظہور کوئی اتفاقی حادثہ ہے، نہ یہ کسی کھلنڈرے کا کھیل تماشا ہے، بلکہ یہ نہایت اہتمام سے پیدا کیا ہوا ایک باغایت و بامقصد کارخانہ ہے اور اِس کی مقصدیت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان جو اِس کائنات میں خلیفہ کی حیثیت رکھتا ہے یوں ہی شتر بے مہار نہ چھوڑ دیا جائے، بلکہ اُس کے سامنے ایک ایسادن آئے جس میں وہ لوگ پورے انصاف کے ساتھ اپنے اعمال کا صلہ پائیں جنھوں نے خالق کائنات کی پسند کے مطابق زندگی بسر کی اور وہ لوگ اپنے جرائم کی سزا بھگتیں جنھوں نے اِس دنیا کو کھیل تماشا سمجھا اور ساری زندگی بطالت میں گزاری۔‘‘(تدبرقرآن۴/ ۲۳)
یعنی پیدا کرنے کے بعد نہ کسی گوشے میں خاموش بیٹھ گیا ہے اور نہ اپنی مخلوقات کے معاملات دوسروں کے سپرد کرکے اُن سے بے تعلق ہو گیا ہے، بلکہ عرش حکومت پر متمکن ہے اور اپنی دنیا کا نظم خود چلا رہا ہے۔
اِس لیے لوگوں کو اِس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ کسی کی سعی و سفارش اُنھیں خدا کے عذاب سے بچا لے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب وہی خدا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر تخت حکومت پر جلوہ گر ہوا اور کائنات کا انتظام چلا رہا ہے۔ کوئی شفاعت (سفارش) کرنے والا نہیں اِلّا یہ کہ اس کی اجازت کے بعد شفاعت کرے۔ یہی اللہ تمہارا رب ہے لہٰذا تم اُسی کی عبادت کرو۔ پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے؟
یعنی پیدا کر کے وہ معطل نہیں ہوگیا بلکہ اپنی پیدا کی ہوئی کائنات کے تخت سلطنت پر وہ خود جلوہ فرما ہوا اور اب سارے جہان کا انتظام عملا اسی کے ہاتھ میں ہے۔ نادان لوگ سمجھتے ہیں خدا نے کائنات کو پیدا کر کے یونہی چھوڑ دیا ہے کہ خود جس طرح چاہے چلتی رہے، یا دوسروں کے حوالے کردیا ہے کہ وہ اس میں جیسا چاہیں تصرف کریں۔ قرآن اس کے برعکس یہ حقیقت پیش کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تخلیق کی اس پوری کار گاہ پر آپ ہی حکمرانی کر رہا ہے، تمام اختیارات اس کے اپنے ہاتھ میں ہیں، ساری زمام اقتدار پر وہ خود قابض ہے، کائنات کے گوشے گوشے میں ہر وقت ہر آن جو کچھ ہو رہا ہے براہ راست اس کے حکم یا اذن سے ہو رہا ہے، اس جہان ہستی کے ساتھ اس کا تعلق صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ کبھی اسے وجود میں لایا تھا، بلکہ ہمہ وقت وہی اس کا مدبر و منتظم ہے، اسی کے قائم رکھنے سے یہ قائم ہے اور اسی کے چلانے سے یہ چل رہا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورة اعراف، حاشیہ نمبر ٤٠، ٤١) ۔
یعنی دنیا کی تدبیر و انتظام میں کسی دوسرے کا دخیل ہونا تو درکنار کوئی اتنا اختیار بھی نہیں رکھتا کہ خدا سے سفارش کر کے اس کا کوئی فیصلہ بدلوا دے یا کسی کی قسمت بنوا دے یا بگڑوا دے۔ زیادہ سے زیادہ کوئی جو کچھ کرسکتا ہے وہ بس اتنا ہے کہ خدا سے دعا کرے، مگر اس کی دعا کا قبول ہونا یا نہ ہونا بالکل خدا کی مرضی پر منحصر ہے۔ خدا کی خدائی میں اتنا زور دار کوئی نہیں ہے کہ اس کی بات چل کر رہے اور اس کی سفارش ٹل نہ سکے اور وہ عرش کا پایہ پکڑ کر بیٹھ جائے اور اپنی بات منوا کر ہی رہے۔
اوپر کے تین فقروں میں حقیقت نفس الامری کا بیان تھا کہ فی الواقع خدا ہی تمہارا رب ہے۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس امر واقعی کی موجودگی میں تمہارا طرز عمل کیا ہونا چاہیے۔ جب واقعہ یہ ہے کہ ربوبیت بالکلیہ خدا کی ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو۔ پھر جس طرح ربوبیت کا لفظ تین مفہومات پر مشتمل ہے، یعنی پروردگار، مالی و آقائی، اور فرماں روائی، اسی طرح اس کے بالمقابل عبادت کا لفظ بھی تین مفہومات پر مشتمل ہے۔ یعنی پرستش، غلامی اور اطاعت۔
خدا کے واحد پروردگار ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اسی کا شکر گزار ہو، اسی سے دعائیں مانگے اور اسی کے آگے محبت و عقیدت سے سر جھکائے۔ یہ عبادت کا پہلا مفہوم ہے۔
خدا کے واحد مالک و آقا ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اس کا بندہ و غلام بن کر رہے اور اس کے مقابلہ میں خود مختارانہ رویہ نہ اختیار کرے اور اس کے سوا کسی اور کی ذہنی یا عملی غلامی قبول نہ کرے۔ یہ عبادت کا دوسرا مفہوم ہے۔
خدا کے واحد مالک و آقا ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اس کے حلم کی اطاعت اور اس کے قانون کی پیروی کرے نہ خود اپنا حکمران بنے اور نہ اس کے سوا کسی دوسرے کی حاکمیت تسلیم کرے۔ یہ عبادت کا تیسرا مفہوم ہے۔
یعنی جب یہ حقیقت تمہارے سامنے کھول دی گئی ہے اور تم کو صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ اس حقیقت کی موجودگی میں تمہارے لیے صحیح طرز عمل کیا ہے تو کیا اب بھی تمہاری آنکھیں نہ کھلیں گی اور انہی غلط فہمیوں میں پڑے رہو گے جن کی بنا پر تمہاری زندگی کا پورا رویہ اب تک حقیقت کے خلاف رہا ہے ؟
بلا شبہ تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کردیا پھر عرش قائم ہوا وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے پاس سفارش کرنے والا نہیں ایسا اللہ تمہارا رب ہے سو تم اس کی عبادت کرو کیا تم پھر بھی نصیحت نہیں پکڑتے۔
اس کی وضاحت کے لئے دیکھئے سورة اعراف آیت ٥٤ کا حاشیہ۔
یعنی آسمان و زمین کی تخلیق کرکے اس نے ان کو یوں ہی نہیں چھوڑ دیا، بلکہ ساری کائنات کا نظم و تدبیر وہ اس طرح کر رہا ہے کہ کبھی کسی کا آپس میں تصادم نہیں ہوا، ہر چیز اس کے حکم پر اپنے اپنے کام میں مصروف ہے۔
٣۔ ٣ مشرکین و کفار، جو اصل ’ مخاطب تھے، ان کا عقیدہ تھا کہ یہ بت، جن کی وہ عبادت کرتے تھے اللہ کے ہاں ان کی شفاعت کریں گے اور ان کو اللہ کے عذاب سے چھڑوائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، وہاں اللہ کی اجازت کے بغیر کسی کو سفارش کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اور یہ اجازت بھی صرف انہی لوگوں کے لئے ہوگی جن کے لئے اللہ تعالیٰ پسند فرمائے گا۔
یعنی ایسا اللہ، جو کائنات کا خالق بھی ہے اس کا مدبر و منتطم بھی علاوہ ازیں تمام اختیارات کا بھی کلی طرح پر وہی مالک ہے، وہی اس لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔
اسی کی طرف تم سب کا لوٹنا ہے۔ یہ اللہ کا پکا وعدہ ہے۔ بے شک وہی خلق کا آغاز کرتا ہے پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کیے ان کو عدل کے ساتھ بدلہ دے اور جنھوں نے کفر کیا ان کے لیے ان کے کفر کی پاداش میں کھولتا پانی اور دردناک عذاب ہے۔
سب کی پیشی خدا ہی کے آگے ہو گی: ’اِلَیْہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا وَعْدَ اللّٰہِ حَقًّا‘۔ اسی کی طرف تم سب کا لوٹنا ہے۔ اس کے سوا کوئی اور مولیٰ و مرجع نہیں ہے۔ یہ اللہ کا شدنی وعدہ ہے۔ ’جَمِیْعًا‘ کی تاکید اس امر کے اظہار کے لیے ہے کہ تمہاری اور جن کو تم نے اپنے گمان کے مطابق خدا کا شریک و شفیع بنا رکھا ہے سب کی پیشی خدا ہی کے آگے ہونی ہے اس سے کوئی بھی نہ بچ سکے گا۔
آغاز و اعادہ خدا کے اختیار میں ہے: ’اِنَّہٗ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ‘۔ یہ اس وعدے کے حق ہونے کی دلیل ہے کہ خدا خلق کا آغاز فرماتا ہے۔ وہی دوبارہ اس کا اعادہ فرمائے گا جس نے پہلی مرتبہ اس کا آغاز کیا، آخر دوبارہ اس کا اعادہ کرنے میں اس کو کیوں دشواری پیش آئے گی؟ اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ جن کا نہ اس کائنات کے آغاز میں کوئی حصہ نہ اس کے اعادہ میں کوئی دخل آخر ان کو کس بنیاد پر تم نے مرجع و مولیٰ بنا رکھا ہے؟
قیامت کا اصل مقصد: ’لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالْقِسْطِ‘۔ یہی اصل مقصد ہے قیامت کے آنے کا۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کا اصل مقصود درحقیقت اہل ایمان کو جزا دینا ہے، اہل کفر کو سزا اس کے لوازم اور توابع میں سے ہے۔ یہی وہ بشارت ہے جس کا آغاز میں ذکر ہوا ہے اس کی دلیل بیان کرنے کے بعد پھر اس کی طرف اشارہ فرما دیا۔
کفار کے لیے اولین سامان ضیافت: ’وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَھُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِیْمٌم بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ‘۔ کفار کو جو عذاب ہو گا یہ اس کا بیان ہے۔ ’شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ‘ کا ذکر، جیسا کہ ہم دوسرے مقام میں اشارہ کر چکے ہیں، اولین سامان ضیافت کی حیثیت سے ہے یعنی ان کی اول تواضع تو ان کے اترتے ہی کھولتے پانی سے ہو گی۔ پھر ان کے لیے دردناک عذاب کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔
تم سب کو (ایک دن) اُسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ وہی خلق کی ابتدا کرتا ہے، پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا، اِس لیے کہ جو لوگ ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اُن کو انصاف کے ساتھ (اُن کے عمل کا) بدلہ دے اور جنھوں نے انکار کر دیا ہے، اُن کے انکار کے بدلے اُن کے لیے کھولتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ہے۔
یعنی تمھیں بھی اور تمھارے اُن معبودوں کو بھی جنھیں تم اپنے گمان کے مطابق خدا کے شریک اور اُس کے حضور میں سفارش کرنے والے سمجھتے ہو۔ آیت میں ’جَمِیْعًا‘ کی تاکید اِسی مضمون کو ظاہر کرتی ہے۔
یعنی جس طرح ابتدا کی ہے، اُسی طرح دوبارہ پیدا کر دے گا۔ اُسے کوئی دشواری پیش نہ آئے گی۔ اِس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ جب خلق اور اعادۂ خلق، دونوں میں کسی کا کوئی حصہ نہیں ہے تو مرجع و مولیٰ بھی وہی ہے۔ اُس کے سوا کوئی دوسرا یہ حیثیت کس بنیاد پر حاصل کر سکتا ہے؟
اسی کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے، یہ اللہ کا پکا وعدہ ہے۔ بے شک پیدائش کی ابتدا وہی کرتا ہے، پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا، تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ان کو پورے انصاف کے ساتھ جزا دے، اور جنہوں نے کفر کا طریقہ اختیار کیا وہ کھولتا ہوا پانی پییں اور دردناک سزا بھگتیں اُس انکار حق کی پاداش میں جو وہ کرتے رہے۔
یہ نبی کی تعلیم کا دوسرا بنیادی اصول ہے۔ اصل اول یہ تمہارا رب صرف اللہ ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو۔ اور اصل دوم یہ کہ تمہیں اس دنیا سے واپس جا کر اپنے رب کو حساب دینا ہے۔
یہ فقرہ دعوے اور دلیل دونوں کا مجموعہ ہے۔ دعوی یہ ہے کہ خدا دوبارہ انسان کو پیدا کرے گا اور اس پر دلیل یہ دی گئی ہے کہ اسی نے پہلی مرتبہ انسان کو پیدا کیا۔ جو شخص یہ تسلیم کرتا ہو کہ خدا نے خلق کی ابتدا کی ہے ( اور اس سے بجز ان دہریوں کے جو محض پادریوں کے مذہب سے بھاگنے کے لیے خلق بےخالق جیسے احمقانہ نظریے کو اوڑھنے پر آمادہ ہوگئے اور کون انکار کرسکتا ہے) وہ اس بات کو ناممکن یا بعد از فہم قرار نہیں دے سکتا کہ وہی خدا اس خلق کا پھر اعادہ کرے گا۔
یہ وہ ضرورت ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ انسان کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ اوپر جو دلیل دی گئی ہے وہ یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی تھی کہ خلق کا اعادہ ممکن ہے اور اسے مستبعد سمجھنا درست نہیں ہے۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ اعادہ خلق، عقل و انصاف کی رو سے ضروری ہے اور یہ ضرورت تخلیق ثانیہ کے سوا کسی دوسرے طریقے سے پوری نہیں ہو سکتی۔ خدا کو اپنا واحد رب مان کر جو لوگ صحیح بندگی کا رویہ اختیار کریں وہ اس کے مستحق ہیں کہ انہیں اپنے اس بےجا طرز عمل کی پوری پوری جزا ملے۔ اور جو لوگ حقیقت سے انکار کر کے اس کے خلاف زندگی بسر کریں وہ بھی اس کے مستحق ہیں کہ وہ اپنے اس بےجا طرز عمل کا برا نتیجہ دیکھیں۔ یہ ضرورت اگر موجودہ دنیوی زندگی میں پوری نہیں ہو رہی ہے (اور ہر شخص جو ہٹ دھرم نہیں ہے جانتا ہے کہ نہیں ہو رہی ہے) تو اسے پورا کرنے کے لیے یقینا دوبارہ زندگی ناگزیر ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورة اعراف، حاشیہ نمبر ٣٠ و سورة ہود، حاشیہ نمبر ١٠٥) ۔
تم سب کو اللہ ہی کے پاس جانا ہے، اللہ نے سچا وعدہ کر رکھا ہے، بیشک وہی پہلی بار بھی پیدا کرتا ہے پھر وہی دوبارہ بھی پیدا کرے گا تاکہ ایسے لوگوں کو جو کہ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے انصاف کے ساتھ جزا دے اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے واسطے کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا اور دردناک عذاب ہوگا ان کے کفر کی وجہ سے ۔
اس آیت میں قیامت کے وقوع، بارگاہ الٰہی میں سب کی حاضری اور جزا سزا کا بیان ہے، یہ مضمون قرآن کریم میں مختلف اسلوب سے متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔
وہی ہے جس نے سورج کو تاباں اور چاند کو نور بنایا اور اس کے لیے منزلیں ٹھہرا دیں تاکہ تم سالوں کا شمار اور حساب معلوم کر سکو۔ اللہ نے یہ کارخانہ بے مقصد نہیں بنایا ہے۔ وہ اپنی نشانیوں کی وضاحت کرتا ہے ان لوگوں کے لیے جو جاننا چاہیں
جزا اور سزا کے قطعی ہونے کی دلیل: توحید کے بعد اب یہ جزا اور سزا کے قطعی ہونے کی دلیل بیان ہو رہی ہے کہ اس کارخانۂ کائنات پر جو شخص بھی غور کرے گا اس کو یہ حقیقت نہایت نمایاں طور پر نظر آئے گی کہ یہ کسی کباڑیے کا مال گودام نہیں بلکہ اس کے ہر گوشے میں اس کے خالق کی عظیم قدرت اور اس کی بے پایاں رحمت و ربوبیت نمایاں ہے۔ اس کے اندر نہایت اعلیٰ اہتمام ہے۔ بے نظیر ترتیب و انتظام ہے، بے مثال اقلیدس و ریاضی ہے۔ سورج معین نظام اوقات کے ساتھ نکلتا اور اپنی تابانیوں سے سارے جہان کو روشن کرتا ہے۔ اس کے فیض سے گرمی، سردی، خزاں اور بہار کے مختلف موسم پیدا ہو جاتے ہیں جن میں سے ہر ایک ہماری دنیا کی زندگی اور اس کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ چاند اس سے کسب ۱ نور کر کے اپنی معین منزلیں طے کرتا اور ہماری تاریک راتوں میں مختلف زاویوں سے ہمارے لیے شمع برداری بھی کرتا ہے اور ہمارے مہینوں اور سالوں کی تقویم بھی بناتا ہے ۔۔۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ دنیا خیر و شر اور نیکی و بدی کے درمیان امتیاز کے بغیر یوں ہی چلتی رہے گی یا یوں ہی ختم ہو جائے گی؟ اگر یہ مان لیا جائے تو یہ ساری قدرت و حکمت بے مقصد بے غایت ہو جاتی ہے جو اس کائنات کے ہر گوشہ میں جلوہ گر ہے۔ پھر تو یہ دنیا بالکل باطل اور ایک کھیل تماشا بن کے رہ جاتی ہے اور یہ ایک ایسی خلاف عقل، ایسی خلاف عدل اور ایسی خلاف فطرت بات ہے کہ کوئی سلیم العقل اور کوئی مستقیم الفطرت انسان ایک لمحہ کے لیے بھی اس کو باور نہیں کر سکتا۔ کچھ اینٹیں ایک جگہ بکھری ہوئی پڑی ہوں تو ان کو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ یونہی پڑی ہوئی ہیں لیکن کیا یہی گمان تاج محل، لال قلعہ اور لاہور و دلی کی جامع مسجدوں کے متعلق بھی کر سکتے ہیں؟
صحیح انسانی فطرت کا اعتراف: ’مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالْحَقِّ‘۔ یہ صحیح انسانی فطرت کا اعتراف بیان ہوا ہے کہ جو عاقل اس نظام کائنات پر غور کرتا ہے وہ پکار اٹھتا ہے کہ یہ کارخانہ باطل اور بے مقصد نہیں بلکہ ایک عظیم غایت کے ساتھ وجود میں آیا ہے اور یہ غایت مقتضی ہے کہ یہ ایک ایسے انجام پر منتہی ہو جو حق اور باطل کے درمیان پورے انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دے اور ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا یا سزا دے۔
’یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ‘۔ فرمایا کہ اس جزا و سزا کی دلیلیں اور نشانیاں اس نظام کائنات کے اندر پھیلی ہوئی ہیں جو دیکھنے والی آنکھوں سے مخفی نہیں ہو سکتیں لیکن اگر کسی کے لیے یہ مخفی تھیں تو اب ہم نے ان لوگوں کے لیے جو جاننا اور سمجھنا چاہیں ان کی تفصیل بھی کر دی ہے۔ بعینہٖ یہی مضمون آل عمران کی آیت ۱۹۱۔ ’وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘ میں بیان ہوا ہے۔ مزید تفصیل کے طالب اس آیت کی تفسیر پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔
_____
۱ آیت میں سورج کے لیے ضیا (چمک اور تابانی) اور چاند کے لیے نور (خنک روشنی) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ بعض لوگوں نے اس فرق کی یہ توجیہہ کی ہے کہ سورج کی روشنی اپنی ذاتی ہے اور چاند کی روشنی سورج سے حاصل کی ہوئی ہے۔ اگرچہ یہ بات بجائے خود صحیح ہے لیکن میرے نزدیک ’ضیا‘ میں روشنی کے ساتھ تپش کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے اور ’نور‘ خنک روشنی کو کہتے ہیں۔ اور یہ ایک امر واقعہ ہے کہ سورج کی روشنی میں تپش ہوتی ہے اور چاند کی روشنی ٹھنڈی ہوتی ہے۔
وہی ہے جس نے سورج کو تاباں اور چاند کو روشنی بنایا اور اُس کے لیے منزلیں ٹھیرا دیں تاکہ تم (اُس سے) برسوں کی گنتی اور (اُن کا) حساب معلوم کرو۔ اللہ نے یہ سب کچھ بے مقصد نہیں بنایا ہے۔ وہ اُن لوگوں کے لیے جو جاننا چاہیں، اپنی نشانیوں کی وضاحت کرتا ہے
اوپر توحید کا استدلال تھا۔ اب جزا و سزا کے قطعی ہونے کی دلیل بیان ہو رہی ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’... اِس کارخانۂ کائنات پر جو شخص بھی غور کرے گا، اُس کو یہ حقیقت نہایت نمایاں طور پر نظر آئے گی کہ یہ کسی کباڑیے کا مال گودام نہیں، بلکہ اِس کے ہر گوشے میں اِس کے خالق کی عظیم قدرت اور اُس کی بے پایاں رحمت و ربوبیت نمایاں ہے۔ اِس کے اندر نہایت اعلیٰ اہتمام ہے۔ بے نظیر ترتیب و انتظام ہے، بے مثال اقلیدس و ریاضی ہے۔ سورج معین نظام اوقات کے ساتھ نکلتا اور اپنی تابانیوں سے سارے جہان کو روشن کرتا ہے۔ اُس کے فیض سے گرمی، سردی، خزاں اور بہار کے مختلف موسم پیدا ہو جاتے ہیں جن میں سے ہر ایک ہماری دنیا کی زندگی اور اُس کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ چاند اُس سے کسب نور کر کے اپنی معین منزلیں طے کرتا اور ہماری تاریک راتوں میں مختلف زاویوں سے ہمارے لیے شمع برداری بھی کرتا ہے اور ہمارے مہینوں اور سالوں کی تقویم بھی بناتا ہے کون کہہ سکتا ہے کہ یہ دنیا خیر و شر اور نیکی و بدی کے درمیان امتیاز کے بغیر یوں ہی چلتی رہے گی یا یوں ہی ختم ہو جائے گی؟ اگر یہ مان لیا جائے تو یہ ساری قدرت و حکمت بے مقصد وبے غایت ہو جاتی ہے جو اِس کائنات کے ہر گوشے میں جلوہ گر ہے۔ پھر تو یہ دنیا بالکل باطل اور ایک کھیل تماشا بن کے رہ جاتی ہے اور یہ ایک ایسی خلاف عقل، ایسی خلاف عدل اور ایسی خلاف فطرت بات ہے کہ کوئی سلیم العقل اور کوئی مستقیم الفطرت انسان ایک لمحے کے لیے بھی اِس کو باور نہیں کر سکتا۔ کچھ اینٹیں ایک جگہ بکھری ہوئی پڑی ہوں تو اُن کو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ یونہی پڑی ہوئی ہیں، لیکن کیا یہی گمان تاج محل، لال قلعہ اور لاہور و دلی کی جامع مسجدوں کے متعلق بھی کر سکتے ہیں؟‘‘(تدبرقرآن۴/ ۲۵)
آیت میں سورج کے لیے ’ضِیَآء‘ اور چاند کے لیے ’نُوْر‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ نور خنک روشنی کو کہتے ہیں اور ضیا میں روشنی کے ساتھ تپش کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ چاند اور سورج کی روشنی میں یہ فرق ایک امر واقعی ہے۔ لفظ ’تاباں‘ سے یہی مفہوم ادا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
چنانچہ جو عاقل بھی اِس نظام عالم کو دیکھے گا، یہی پکارے گا کہ یہ اتھاہ معنویت اور یہ حیرت انگیز نظم و ترتیب بے مقصد نہیں ہے، بلکہ ضرور کسی عظیم غایت کے ساتھ وجود پذیر ہوا ہے۔
وہی ہے جس نے سُورج کو اجیالا بنایا اور چاند کو چمک دی اور چاند کے گھٹنے بڑھنے کی منزلیں ٹھیک ٹھیک مقرر کر دیں تاکہ تم اُس سے برسوں اور تاریخوں کے حساب معلوم کرو۔ اللہ نے یہ سب کچھ (کھیل کے طور پر نہیں بلکہ) با مقصد ہی بنایا ہے۔ وہ اپنی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کر رہا ہے اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔
n/a
وہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے آفتاب کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو نورانی بنایا اور اس کے لئے منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں بےفائدہ نہیں پیدا کیں۔ وہ یہ دلائل ان کو صاف صاف بتلا رہا ہے جو دانش رکھتے ہیں۔
ضیاء ضوء کے ہم معنی ہے۔ مضاف یہاں محذوف ہے ذات ضیاء والقمر ذانور، سورج کو چمکنے والا اور چاند کو نور والا بنایا۔ یا پھر انہیں مبالغے پر محمول کیا جائے گویا کہ یہ بذات خود ضیا اور نور ہیں۔ آسمان و زمین کی تخلیق اور ان کی تدبیر کے ذکر کے بعد بطور مثال کچھ اور چیزوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن کا تعلق تدبیر کائنات سے ہے جس میں سورج اور چاند کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ سورج کی حرارت اور تپش اور اس کی روشنی، کس قدر ناگزیر ہے اس سے ہر با شعور آدمی واقف ہے۔ اسی طرح چاند کی نورانیت کا جو لطف اور اس کے فوائد ہیں، وہ بھی محتاج بیان نہیں۔ حکما کا خیال ہے کہ سورج کی روشنی بالذات ہے اور چاند کی نورانیت ہے جو سورج کی روشنی سے مستفاد ہے (فتح القدیر)
یعنی ہم نے چاند کی چال کی منزلیں مقرر کردی ہیں ان منزلوں سے مراد مسافت ہے جو وہ ایک رات اور ایک دن میں اپنی مخصوص حرکت یا چال کے ساتھ طے کرتا ہے یہ ٢٨ منزلیں ہیں۔ ہر رات کو ایک منزل پر پہنچتا ہے جس میں کبھی خطا نہیں ہوتی۔ پہلی منزل میں وہ چھوٹا اور باریک نظر آتا ہے، پھر بتدریخ بڑا ہوتا جاتا ہے حتٰی کے چودھویں شب یا چودھویں منزل پر وہ مکمل (بدر کامل) ہوجاتا ہے اس کے بعد پھر وہ سکڑنا اور باریک ہونا شروع ہوجاتا ہے حتٰی کے آخر میں ایک یا دو راتیں چھپا رہتا ہے۔ اور پھر ہلال بن کر طلوع ہوجاتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرسکو۔ یعنی چاند کی ان منازل اور رفتار سے ہی مہینے اور سال بنتے ہیں۔ جن سے تمہیں ہر چیز کا حساب کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ یعنی سال ١٢ مہینے کا، مہینہ ٢٩، ٣٠ دن کا ایک دن ٢٤ گھنٹے یعنی رات اور دن کا۔ جو ایام استوا میں ١٢، ١٢ گھنٹے اور سردی گرمی میں کم و بیش ہوتے ہیں، علاوہ ازیں دینوی منافع اور کاروبار ہی ان منازل قمر سے وابستہ نہیں۔ دینی منافع بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اس طلوع بلال سے حج، صیام رمضان، اشہر حرم اور دیگر عبادات کی تعین ہوتی ہے جن کا اہتمام ایک مومن کرتا ہے۔
بے شک رات اور دن کی آمد و شد اور آسمانوں اور زمین کی مخلوقات میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ڈریں
گردش لیل و نہار کا درس: ’اِنَّ فِی اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ ...... الایۃ‘۔ اختلاف لیل و نہار سے اس تعاقب کی طرف بھی اشارہ ہو رہا ہے جو وہ ایک دوسرے کا پوری سرگرمی سے کر رہے ہیں جس سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ یہ گردش بے غایت و بے مقصد نہیں ہے بلکہ ایک عظیم نتیجہ پر منتہی ہونے والی ہے، دوسرے اس عظیم نظام ربوبیت کی طرف بھی اس میں اشارہ ہے جو رات اور دن کے اختلاف مزاج کے اندر مضمر ہے کہ دن انسان کے لیے معاش و معیشت کی سرگرمیوں کا میدان گرم کرتا ہے اور رات اس کے لیے راحت و سکون کا بستر بچھاتی ہے۔ اس نظام پر جو شخص بھی غور کرتا ہے وہ لازماً اس نتیجہ تک پہنچتا ہے کہ اضداد کے اندر ایک مشترک مقصد کے لیے یہ حیرت انگیز توافق اسی شکل میں وجود میں آ سکتا ہے جب یہ مانا جائے کہ یہ سارا کارخانہ صرف ایک قادر و قیوم کے ارادے کے تحت کام کر رہا ہے اور پھر اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جس نے ربوبیت و پرورش کا یہ سارا نظام کھڑا کیا ہے اور اس کو اس اہتمام سے چلا رہا ہے وہ انسان کو مطلق العنان اور غیر مسؤل نہیں چھوڑے گا بلکہ اس کے بعد ایک ایسا دن لازماً آنا ہے جس میں وہ اس ربوبیت کا حق پہچاننے والوں کو ان کی حق شناسی کا انعام دے گا اور اس سے بے پروا رہنے والوں کو جہنم میں جھونک دے گا۔ یہی نتیجہ اس کائنات کے تمام اجزا اور اس کے تمام اضداد پر غور کرنے سے حاصل ہوتا ہے اور یہی حاصل ہے جو انسان کی رہنمائی آخرت اور اس جزا و سزا کی طرف کرتا ہے جس سے انسان کے اندر وہ حقیقی تقویٰ پیدا ہوتا ہے جس کی طرف آل عمران کی مذکورہ بالا آیت میں ’سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘ کے الفاظ سے اشارہ ہوا ہے۔
یقیناً رات اور دن کے الٹ پھیر میں اور جو کچھ زمین اور آسمانوں میں اللہ نے پیدا کیا ہے، اُس میں اُن لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو ڈرتے ہیں
یعنی اِس بات کی نشانیاں کہ یہ کائنات بے مقصد نہیں ہے، بلکہ ایک عظیم نتیجے تک پہنچنے والی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... اِس نظام پر جو شخص بھی غور کرتا ہے، وہ لازماً اِس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ اضداد کے اندر ایک مشترک مقصد کے لیے یہ حیرت انگیز توافق اِسی شکل میں وجود میں آسکتا ہے، جب یہ مانا جائے کہ یہ سارا کارخانہ صرف ایک قادر و قیوم کے ارادے کے تحت کام کر رہا ہے اور پھر اِس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جس نے ربوبیت و پرورش کا یہ سارا نظام کھڑا کیا ہے اور اُس کو اِس اہتمام سے چلا رہا ہے، وہ انسان کو مطلق العنان اور غیر مسؤل نہیں چھوڑے گا، بلکہ اِس کے بعد ایک ایسا دن لازماً آنا ہے جس میں وہ اِس ربوبیت کا حق پہچاننے والوں کو اُن کی حق شناسی کا انعام دے گا، اور اِس سے بے پروا رہنے والوں کو جہنم میں جھونک دے گا۔‘‘(تدبرقرآن۴/ ۲۶)
یقیناً رات اور دن کے الٹ پھیر میں اور ہر اُس چیز میں جو اللہ نے زمین اور آسمانوں میں پیدا کی ہے، نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو (غلط بینی و غلط روی سے) بچنا چاہتے ہیں۔
یہ عقیدہ آخرت کی تیسری دلیل ہے۔ کائنات میں اللہ تعالیٰ کے جو کام ہر طرف نظر آرہے ہیں، جن کے بڑے بڑے نشانات سورج اور چاند، اور لیل و نہار کی گردش کی صورت میں ہر شخص کے سامنے موجود ہیں، ان سے اس بات کا نہایت واضح ثبوت ملتا ہے کہ اس عظیم الشان کار گاہ ہستی کا خالق کوئی بچہ نہیں ہے جس نے محض کھیلنے کے لیے یہ سب کچھ بنایا ہو اور پھر دل بھر لینے کے بعد یونہی اس گھروندے کو توڑ پھوڑ ڈالے۔ صریح طور پر نظر آرہا ہے کہ اس کے ہر کام میں نظم ہے، حکمت ہے، مصلحتیں ہیں، اور ذرے ذرے کی پیدائش میں ایک گہری مقصدیت پائی جاتی ہے۔ پس جب وہ حکیم ہے اور اس کی حکمت کے آثار و علائم تمہارے سامنے علانیہ موجود ہیں، تو اس سے تم کیسے یہ توقع رکھ سکتے ہو کہ وہ انسان کو عقل اور اخلاقی ذمہ داری کی بنا پر جزا و سزا کا جو استحقاق لازما پیدا ہوتا ہے اسے یونہی مہمل چھوڑ دے گا۔
اس طرح ان آیات میں عقیدہ آخرت پیش کرنے کے ساتھ اس کی تین دلیلیں ٹھیک ٹھیک منطقی ترتیب کے ساتھ دی گئی ہیں :
اول یہ کہ دوسری زندگی ممکن ہے کیونکہ پہلی زندگی کا امکان واقعہ کی صورت میں موجود ہے۔
دوم یہ کہ دوسری زندگی کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ زندگی میں انسان اپنی اخلاقی ذمہ داری کو صحیح یا غلط طور پر جس طرح ادا کرتا ہے اور اس سے سزا اور جزا کا جو استحقاق پیدا ہوتا ہے اس کی بنا پر عقل اور انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ایک اور زندگی ہو جس میں ہر شخص اپنے اخلاقی رویہ کا وہ نتیجہ دیکھے جس کا وہ مستحق ہے۔
سوم یہ ہے جب عقل و انصاف کی رو سے دوسری زندگی کی ضرورت ہے تو یہ ضرورت یقینا پوری کی جائے گی، کیونکہ انسان اور کائنات کا خالق حکیم ہے اور حکیم سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ حکمت و انصاف جس چیز کے متقاضی ہوں اسے وہ وجود میں لانے سے باز رہ جائے۔
غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ زندگی بعد موت کو استدلال سے ثابت کرنے کے لیے یہی تین دلیلیں ممکن ہیں اور یہی کافی بھی ہیں۔ ان دلیلوں کے بعد اگر کسی چیز کی کسر باقی رہ جاتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ انسان کو آنکھوں سے دکھا دیا جائے کہ جو چیز ممکن ہے جس کے وجود میں آنے کی ضرورت بھی ہے، اور جس کو وجود میں لانا خدا کی حکمت کا تقاضا بھی ہے، وہ دیکھ یہ تیرے سامنے موجود ہے۔ لیکن یہ کسر بہرحال موجودہ دنیوی زندگی میں پوری نہیں کی جائے گی، کیونکہ دیکھ کر ایمان لانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ انسان کا جو امتحان لینا چاہتا ہے وہ تو ہے ہی یہ کہ وہ حس اور مشاہدے سے بالاتر حقیقتوں کو خالص نظر و فکر اور استدلال صحیح کے ذریعہ سے مانتا ہے یا نہیں۔
اس سلسلہ میں ایک اور اہم مضمون بھی بیان فرما دیا گیا ہے جو گہری توجہ کا مستحق ہے۔ فرمایا کہ ” اللہ کی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کر رہا ہے ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں “ اور ” اللہ کی پیدا کی ہوئی ہر چیز میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غلط بینی و غلط روی سے بچنا چاہتے ہیں “۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نہایت حکیمانہ طریقے سے زندگی کے مظاہر میں ہر طرف وہ آثار پھیلا رکھے ہیں جو ان مظاہر کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقتوں کی صاف صاف نشان دہی کر رہے ہیں۔ لیکن ان نشانات سے حقیقت تک صرف وہ لوگ رسائی حاصل کرسکتے ہیں جن کے اندر یہ دو صفات موجود ہیں :
ایک یہ کہ وہ جاہلانہ تعصبات سے پاک ہو کر علم حاصل کرنے کے ان ذرائع سے کام لیں جو اللہ نے انسان کو دیے ہیں۔
دوسرے یہ کہ ان کے اندر خود یہ خواہش موجود ہو کہ غلطی سے بچیں اور صحیح راستہ اختیار کریں۔
بلا شبہ رات اور دن کے یکے بعد دیگرے آنے میں اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں پیدا کیا ہے ان سب میں ان لوگوں کے واسطے دلائل ہیں جو اللہ کا ڈر رکھتے ہیں۔
جو لوگ ہماری ملاقات کے متوقع نہیں ہیں اور اسی دنیا کی زندگی پر قانع اور مطمئن ہیں اور جو ہماری نشانیوں سے غافل ہیں
ان لوگوں کا انجام جو نشانیوں سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں: ’اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ ....... بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ‘۔ یہ ان لوگوں کا انجام بیان ہوا ہے جو اس کائنات کی ان تمام نشانیوں کے باوجود اندھے بہرے بنے ہوئے ہیں اور اسی دنیا کی زندگی پر مطمئن ہیں نہ انھیں خدا کی ملاقات کا اندیشہ ہے، نہ آخرت کا ڈر ہے۔ فرمایا کہ ان سب کا ٹھکانا جہنم ہو گا۔ لفظ ’رجا‘ یہاں توقع اور اندیشہ کے معنی میں ہے اور یہی اس کا اصل لغوی مفہوم ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے اور اِسی دنیا کی زندگی پر راضی اور مطمئن ہو گئے ہیں اور جو ہماری نشانیوں سے غافل ہیں
n/a
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہو گئے ہیں، اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔
n/a
جن لوگوں کو ہمارے پاس آنے کا یقین نہیں ہے اور وہ دنیاوی زندگی پر راضی ہوگئے اور اس میں جی لگا بیٹھے ہیں اور جو لوگ ہماری آیتوں سے غافل ہیں۔
انہی لوگوں کا ٹھکانا دوزخ ہے ان کے اعمال کی پاداش میں
ان لوگوں کا انجام جو نشانیوں سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں: ’اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ ....... بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ‘۔ یہ ان لوگوں کا انجام بیان ہوا ہے جو اس کائنات کی ان تمام نشانیوں کے باوجود اندھے بہرے بنے ہوئے ہیں اور اسی دنیا کی زندگی پر مطمئن ہیں نہ انھیں خدا کی ملاقات کا اندیشہ ہے، نہ آخرت کا ڈر ہے۔ فرمایا کہ ان سب کا ٹھکانا جہنم ہو گا۔ لفظ ’رجا‘ یہاں توقع اور اندیشہ کے معنی میں ہے اور یہی اس کا اصل لغوی مفہوم ہے۔
اُنھی کا ٹھکانا جہنم ہے اُن کے اعمال کی پاداش میں
n/a
اُن کا آخری ٹھکانہ جہنم ہو گا اُن برائیوں کی پاداش میں جن کا اکتساب وہ (اپنے اس غلط عقیدے اور غلط طرز عمل کی وجہ سے) کرتے رہے۔
یہاں سے پھر دعوے کے ساتھ ساتھ اس کی دلیل بھی اشارۃ بیان کردی گئی ہے۔ دعوی یہ ہے کہ عقیدہ آخرت کے انکار کا لازمی اور قطعی نتیجہ جہنم ہے، اور دلیل ہے کہ اس عقیدے سے منکر یا خالی الذہن ہو کر انسان ان برائیوں کا اکتساب کرتا ہے جن کی سزا جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اور ہزارہا سال کے انسانی رویے کا تجربہ اس پر شاہد ہے۔ جو لوگ خدا کے سامنے اپنے آپ کو ذمہ دار اور جواب دہ نہیں سمجھتے، جو اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے کہ انہیں آخرکار خدا کو اپنے پورے کارنامہ حیات کا حساب دینا ہے، جو اس مفروضے پر کام کرتے ہیں کہ زندگی بس یہی دنیا کی زندگی ہے، جن کے نزدیک کامیابی و ناکامی کا معیار صرف یہ ہے کہ اس دنیا میں آدمی نے کس قدر خوشحالی، آسائش، شہرت اور طاقت حاصل کی، اور جو اپنے انہی مادہ پرستانہ تخیلات کی بنا پر آیات الہٰی کو ناقابل توجہ سمجھتے ہیں، ان کی پوری زندگی غلط ہو کر رہ جاتی ہے۔ وہ دنیا میں شتر بےمہار بن کر رہتے ہیں، نہات برے اخلاق و اوصاف کا اکتساب کرنے میں، خدا کی زمین کو ظلم و فساد اور فسق و فجور سے بھر دیتے ہیں، اور اس بنا پر جہنم کے مستحق بن جاتے ہیں۔
یہ عقیدہ آخرت پر ایک اور نوعیت کی دلیل ہے۔ پہلی تین دلیلیں عقلی استدلال کے قبیل سے تھیں، اور یہ تجربی استدلال کے قبیل سے ہے۔ یہاں اسے صرف اشارۃ بیان کیا گیا ہے، مگر قرآن میں مختلف مواقع پر ہمیں اس کی تفصیل ملتی ہے۔ اس استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کا انفرادی رویہ اور انسانی گروہوں کا اجتماعی رویہ کبھی اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک یہ شعور اور یہ یقین انسانی سیرت کی بنیاد میں پیوست نہ ہو کہ ہم کو خدا کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ اب غور طلب یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے ؟ کیا وجہ ہے کہ اس شعور و یقین کے غائب یا کمزور ہوتے ہی انسانی سیرت و کردار کی گاڑی برائی کی راہ پر چل پڑتی ہے۔ اگر عقیدہ آخرت حقیقت نفس الامری کے مطابق نہ ہو اور اس کا انکار حقیقت کے خلاف نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ اس اقرار و انکار کے نتائج ایک لزومی شان کے ساتھ مسلسل ہمارے تجربے میں آتے۔ ایک ہی چیز سے پیہم صحیح نتائج کا برآمد ہونا اور اس کے عدم سے نتائج کا ہمیشہ غلط ہوجانا اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ وہ چیز بجائے خود صحیح ہے۔
اس کے جواب میں بسا اوقات یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ بہت سے منکرین آخرت ایسے ہیں جن کا فلسفہ اخلاق اور دستور عمل سراسر دہریت و مادہ پرستی پر مبنی ہے پھر بھی وہ اچھی خاصی پاک سیرت رکھتے ہیں اور ان سے ظلم و فساد اور فسق و فجور کا ظہور نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اپنے معاملات میں نیک اور خلق خدا کے خدمت گزار ہوتے ہیں۔ لیکن اس استدلال کی کمزوری بادنی تامل واضح ہوجاتی ہے۔ تمام مادہ پرستانہ لادینی فلسفوں اور نظامات فکر کی جانچ پڑتال کر کے دیکھ لیا جائے۔ کہیں ان اخلاقی خوبیوں اور عملی نیکیوں کے لیے کوئی بنیاد نہ ملے گی جن کا خراج تحسین ان ” نیکوکار “ دہریوں کو دیا جاتا ہے۔ کسی منطق سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ ان لادینی فلسفوں میں راست بازی، امانت، دیانت، وفائے عہد، عدل، رحم، فیاضی، ایثار، ہمدردی، ضبط نفس، عفت، حق شناسی، اور ادائے حقوق کے لیے محرکات موجود ہیں۔ خدا اور آخرت کو نظر انداز کردینے کے بعد اخلاق کے لیے اگر کوئی قابل عمل نظام بن سکتا ہے تو وہ صرف افادیت (utilitarianism) کی بنیادوں پر بن سکتا ہے۔ باقی تمام اخلاقی فلسفے محض فرضی اور کتابی ہیں نہ کہ عملی۔ اور افادیت جو اخلاق پیدا کرتی ہے اسے خواہ کتنی ہی وسعت دی جائے، بہرحال وہ اس سے آگے نہیں جاتا کہ آدمی وہ کام کرے جس کا کوئی فائدہ اس دنیا میں اس کی ذات کی طرف، یا اس معاشرے کی طرف جس سے وہ تعلق رکھتا ہے، پلٹ کر آنے کی توقع ہو۔ یہ وہ چیز ہے جو فائدے کی امید اور نقصان کے اندیشے کی بنا پر انسان سے سچ اور جھوٹ، امانت اور خیانت، ایمانداری اور بےایمانی، وفا اور غدر، انصاف اور ظلم، غرض ہر نیکی اور اس کی ضد کا حسب موقع ارتکاب کرا سکتی ہے۔ ان اخلاقیات کا بہترین نمونہ موجودہ زمانہ کی انگریز قوم ہے جس کو اکثر اس امر کی مثال میں پیش کیا جاتا ہے کہ مادہ پرستانہ نظریہ حیات رکھنے اور آخرت کے بہترین تصور سے خالی ہونے کے باوجود اس قوم کے افراد بالعموم دوسروں سے زیادہ سچے، کھرے، دیانت دار، عہد کے پابند، انصاف پسند اور معاملات میں قابل اعتماد ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ افادی اخلاقیات کی ناپائیداری کا سب سے زیادہ نمایاں عملی ثبوت ہم کو اسی قوم کے کردار میں ملتا ہے۔ اگر فی الواقع انگریزوں کی سچائی، انصاف پسندی، راستبازی اور عہد کی پابندی اس یقین و اذعان پر مبنی ہوتی کہ یہ صفات بجائے خود مستقل اخلاقی خوبیاں ہیں تو آخر یہ کس طرح ممکن تھا کہ ایک ایک انگریز تو اپنے شخصی کردار میں ان کا حامل ہوتا مگر ساری قوم مل کر جن لوگوں کو اپنا نمائندہ اور اپنے اجتماعی امور کا سربراہ کار بناتی ہے وہ بڑے پیمانے پر اس کی سلطنت اور اس کے بین الاقوامی معاملات کے چلانے میں علانیہ جھوٹ، بدعہدی، ظلم، بےانصافی اور بددیانتی سے کام لیتے اور پوری قوم کا اعتماد ان کو حاصل رہتا ؟ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ یہ لوگ مستقل اخلاقی قدروں کے قائل نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدے اور نقصان کے لحاظ سے بیک وقت دو متضاد اخلاقی رویے اختیار کرتے ہیں اور کرسکتے ہیں ؟
تاہم اگر کوئی منکر خدا و آخرت فی الواقع دنیا میں ایسا موجود ہے جو مستقل طور پر بعض نیکیوں کا پابند اور بعض بدیوں سے مجتنب ہے تو درحقیقت اس کی یہ نیکی اور پرہیزگاری اس کے مادہ پرستانہ نظریہ حیات کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ان مذہبی اثرات کا نتیجہ ہے جو غیر شعوری طور پر اس کے نفس میں متمکن ہیں۔ اس کا اخلاقی سرمایہ مذہب سے چرایا ہوا ہے اور اس کو وہ ناروا طریقے سے لامذہبی میں استعمال کر رہا ہے۔ کیونکہ وہ اپنی لامذہبی و مادہ پرستی کے خزانے میں اس سرمائے کے ماخذ کی نشان دہی ہرگز نہیں کرسکتا۔
ایسے لوگوں کا ٹھکانا ان کے اعمال کی وجہ سے دوزخ ہے۔
جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے اللہ ان کے ایمان کی بدولت ان کو ان کی منزل پر پہنچائے گا، ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، نعمت کے باغوں میں
اہل ایمان کا انجام: ’اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَھْدِیْھِمْ رَبُّھُمْ بِاِیْمَانِھِمْ ....... اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘۔ ’ھدَایت‘ یہاں منزل مقصود کی ہدایت کے مفہوم میں ہے جو تمام کائنات کی تخلیق کی غایت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کی بدولت جنت میں ان کے حسب مراتب منازل و مقامات کی طرف ان کی رہنمائی فرمائے گا ’دَعْوٰھُمْ فِیْھَا سُبْحٰنَکَ‘ یعنی جب وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ حق، حق ہو کے رہا اور باطل، باطل تو بے تحاشا ان کی زبان سے ’سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ‘ کے الفاظ نکلیں گے کہ آیات الٰہی کے مشاہدے سے ہمارا جو یہ گمان تھا کہ یہ کارخانۂ کائنات کھلنڈرے کا کھیل نہیں ہو سکتا، اس عظیم خالق کی شان سے بعید ہے کہ وہ کوئی کار عبث کرے، تو ہمارا یہ گمان سچا ثابت ہوا۔ ’تَحِیَّتُھُمْ فِیْھَا سَلٰمٌ‘ یعنی ایک کامیاب اور فتح مند ٹیم کی طرح ان کے آپس میں مبارک سلامت کے تبادلے ہوں گے اور دوسری طرف کفار کے اندر جوتیوں میں دال بٹ رہی ہو گی اور ہر ایک دوسرے پر لعنت کر رہا ہو گا ’وَاٰخِرُ دَعْوٰھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘۔ یہ تکمیل نعمت پر اظہار تشکر ہے کہ اہل جنت جب دیکھیں گے کہ ہر طرف نعمت ہی نعمت ہے تو بے تحاشا ان کی زبان سے یہ شکر کا کلمہ نکلے گا۔
(اِس کے بر خلاف) جو لوگ ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اُن کا پروردگار اُن کے ایمان کی بدولت اُنھیں (اُن کی منزل تک) پہنچا دے گا۔ اُن کے نیچے ، نعمت کے باغوں میں (اُن کے لیے) نہریں بہ رہی ہوں گی
n/a
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو لوگ ایمان لائے (یعنی جنہوں نے اُن صداقتوں کو قبول کر لیا جو اس کتاب میں پیش کی گئی ہیں) اور نیک اعمال کرتے رہے انہیں اُن کا رب اُن کے ایمان کی وجہ سے سیدھی راہ چلائے گا، نعمت بھری جنتوں میں ان کے نیچے نہریں بہیں گی۔
اس جملے پر سے سرسری طور پر نہ گزر جائیے۔ اس کے مضمون کی ترتیب گہری توجہ کی مستحق ہے :
ان لوگوں کو آخرت کی زندگی میں جنت کیوں ملے گی ؟۔۔ اس لیے کہ وہ دنیا کی زندگی میں سیدھی راہ چلے۔ ہر کام میں، ہر شعبہ زندگی میں، ہر انفرادی و اجتماعی معاملے میں انہوں نے برحق طریقہ اختیار کیا اور باطل طریقوں کو چھوڑ دیا۔
یہ ہر ہر قدم پر زندگی کے ہر موڑ اور ہر دو را ہے پر، ان کو صحیح اور غلط، حق اور باطل، راست اور ناراست کی تمیز کیسے حاصل ہوئی ؟ اور پھر اس تمیز کے مطابق راست روی پر ثبات اور کج روی سے پرہیز کی طاقت انہیں کہاں سے ملی ؟۔۔ ان کے رب کی طرف سے، کیونکہ وہی علمی رہنمائی اور عملی توفیق کا منبع ہے۔
ان کا رب انہیں یہ ہدایت اور یہ توفیق کیوں دیتا رہا ؟۔۔ ان کے ایمان کی وجہ سے۔
یہ نتائج جو اوپر بیان ہوئے ہیں کس ایمان کے نتائج ہیں ؟۔۔۔۔۔ اس پر ایمان کے نہیں جو محض مان لینے کے معنی میں ہو، بلکہ اس ایمان کے جو سیرت و کردار کی روح بن جائے اور جس کی طاقت سے اخلاق و اعمال میں صلاح کا ظہور ہونے لگے۔ اپنی جسمانی زندگی میں آپ خود دیکھتے ہیں کہ بقائے حیات، تندرستی، قوت کار، اور لذت زندگانی کا حصول صحیح قسم کی غذا پر موقوف ہوتا ہے۔ لیکن یہ نتائج اس تغذیہ کہ نہیں ہوتے جو محض کھا لینے کے معنی میں ہو، بلکہ اس تغذیے کے ہوتے ہیں جو ہضم ہو کر خون بنے اور رگ رگ میں پہنچ کر ہر حصہ جسم کو وہ طاقت بخشے جس سے وہ اپنے حصے کا کام ٹھیک ٹھیک کرنے لگے۔ بالکل اسی طرح اخلاقی زندگی میں بھی ہدایت یابی، راست بینی، راست روی اور بالآخر فلاح و کامیابی کا حصول صحیح عقائد پر موقوف ہے، مگر یہ نتائج ان عقائد کے نہیں جو محض زبان پر جاری ہوں یا دل و دماغ کے کسی گوشے میں بےکار پڑے ہوئے ہوں، بلکہ ان عقائد کے ہیں جو نفس کے اندر جذب و پیوست ہو کر انداز فکر اور مذاق طبع اور افتاد مزاج بن جائیں، اور سیرت و کردار اور رویہ زندگی میں نمایاں ہوں۔ خدا کے قانون طبیعی میں وہ شخص جا کے کھا کر نہ کھانے والے کی طرح رہے، ان انعامات کا مستحق نہیں ہوتا جو کھا کر ہضم کرنے والے کے لیے رکھے گئے ہیں۔ پھر کیوں توقع کی جائے کہ اس کے قانون اخلاقی میں وہ شخص جو مان کر نہ ماننے والے کی طرح رہے ان انعامات کا مستحق ہوسکتا ہے جو مان کر صالح بننے والے کے لیے رکھے گئے ہیں ؟
یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے ان کا رب ان کو ان کے ایمان کے سبب ان کے مقصد تک پہنچا دے گا نعمت کے باغوں میں جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی۔
اس کے ایک دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ دنیا میں ایمان کے سبب قیامت والے دن اللہ تعالیٰ ان کے لئے پل صراط سے گزرنا آسان فرما دے گا، بعض کے نزدیک یہ مدد مانگنے کے لئے ہے اور معنی یہ ہونگے کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ان کے لئے ایک نور مہیا فرمائے گا جس کی روشنی میں وہ چلیں گے، جیسا کہ سورة حدید میں اس کا ذکر آتا ہے۔
اس میں ان کا ترانہ ہو گا اے اللہ تو پاک ہے۔ اور اس میں ان کی آپس کی تحیت سلام ہو گی اور ان کا آخری کلمہ الحمد للہ رب العالمین (شکر ہے اللہ رب العالمین کے لیے) ہو گا
اہل ایمان کا انجام: ’اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَھْدِیْھِمْ رَبُّھُمْ بِاِیْمَانِھِمْ ....... اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘۔ ’ھدَایت‘ یہاں منزل مقصود کی ہدایت کے مفہوم میں ہے جو تمام کائنات کی تخلیق کی غایت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کی بدولت جنت میں ان کے حسب مراتب منازل و مقامات کی طرف ان کی رہنمائی فرمائے گا ’دَعْوٰھُمْ فِیْھَا سُبْحٰنَکَ‘ یعنی جب وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ حق، حق ہو کے رہا اور باطل، باطل تو بے تحاشا ان کی زبان سے ’سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ‘ کے الفاظ نکلیں گے کہ آیات الٰہی کے مشاہدے سے ہمارا جو یہ گمان تھا کہ یہ کارخانۂ کائنات کھلنڈرے کا کھیل نہیں ہو سکتا، اس عظیم خالق کی شان سے بعید ہے کہ وہ کوئی کار عبث کرے، تو ہمارا یہ گمان سچا ثابت ہوا۔ ’تَحِیَّتُھُمْ فِیْھَا سَلٰمٌ‘ یعنی ایک کامیاب اور فتح مند ٹیم کی طرح ان کے آپس میں مبارک سلامت کے تبادلے ہوں گے اور دوسری طرف کفار کے اندر جوتیوں میں دال بٹ رہی ہو گی اور ہر ایک دوسرے پر لعنت کر رہا ہو گا ’وَاٰخِرُ دَعْوٰھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘۔ یہ تکمیل نعمت پر اظہار تشکر ہے کہ اہل جنت جب دیکھیں گے کہ ہر طرف نعمت ہی نعمت ہے تو بے تحاشا ان کی زبان سے یہ شکر کا کلمہ نکلے گا۔
وہاں اُن کی صدا ہو گی کہ اے اللہ، تو پاک ہے اور اُن کی تسلیمات سلامتی کی دعا ہو گی اور آخری کلمہ یہ ہو گا کہ شکر اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے عالم کا پروردگار ہے
یعنی اِس بات سے پاک ہے کہ کبھی کوئی عبث کام کرے۔
وہاں ان کی صدا یہ ہوگی کہ پاک ہے تو اے خدا، ” اُن کی دعا یہ ہوگی کہ سلامتی ہو۔ ” اور ان کی ہر بات کا خاتمہ اس پر ہوگا کہ ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔ “
یہاں ایک لطیف انداز میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کے دارالامتحان سے کامیاب ہو کر نکلنے اور نعمت بھری جنتوں میں پہنچ جانے کے بعد یہ نہیں ہوگا کہ یہ لوگ بس وہاں پہنچتے ہی سامان عیش پر بھوکوں کی طرح ٹوٹ پڑیں گے اور ہر طرف سے لاؤ حوریں لاؤ شراب اور بجے چنگ درباب کی صدائیں بلند ہونے لگیں گی جیسا کہ جنت کا نام سنتے ہی بعض کج فہم حضرات کے ذہن میں اس کا نقشہ گھومنے لگتا ہے بلکہ درحقیقت صالح اہل ایمان دنیا میں افکار عالیہ اور اخلاق فاضلہ اختیار کر کے اپنے جذبات کو سنوار کر اپنی خواہشات کو سدھار کر اور اپنی سیرت و کردار کو پاکیزہ بنا کر جس قسم کی بلند ترین شخصیتیں اپنی ذات میں بہم پہنچائیں گے وہی دنیا کے ماحول سے مختلف، جنت کے پاکیزہ ترین ماحول میں اور زیادہ نکھر کر ابھر آئیں گی اور ان کے وہی اوصاف جو دنیا میں انہوں نے پرورش کیے تھے وہاں اپنی پوری شان کے ساتھ ان کی سیرت میں جلوہ گر ہوں گے ان کا محبوب ترین مشغلہ وہی اللہ کی حمد و تقدیس ہوگا جس سے دنیا میں وہ مانوس تھے اور ان کی سوسائٹی میں وہی ایک دوسرے کی سلامتی چاہنے کا جذبہ کا فرما ہوگا جسے دنیا میں انہوں نے اپنے اجتماعی رویے کی روح بنایا تھا۔
ان کے منہ سے یہ بات نکلے گی ’ سبحان اللہ ’ اور ان کا باہمی سلام یہ ہوگا ’ السلام علیکم ’ اور ان کی اخیر بات یہ ہوگی تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو سارے جہان کا رب ہے۔
یعنی اہل جنت اللہ کی حمد و تسبیح میں ہر وقت تعریف کرتے رہیں گے۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ ’ اہل جنت کی زبانوں پر تسبیح وتحمید کا اس طرح الہام ہوگا جس طرح سانس کا الہام کیا جاتا ہے، یعنی جس طرح بےاختیار سانس کی آمدورفت رہتی ہی، اسی طرح اہل جنت کی زبانوں پر بغیر اہتمام کے حمدو تسبیح الٰہی کے ترانے رہیں گے۔
یعنی ایک دوسرے کو اس طرح سلام کریں گے، نیز فرشتے بھی انہیں سلام عرض کریں گے۔
امین احسن اصلاحی
یہ الف، لام، را ہے۔ یہ پرحکمت کتاب کی آیات ہیں
’کتاب حکیم‘ کا مفہوم: ’الٓرٰ‘۔ اس سورہ کا قرآنی نام ’الٓرٰ‘ ہے اور ’تِلْکَ‘ کا اشارہ اسی کی طرف ہے۔ یہ حروف مقطعات ہیں جن پر ایک جامع بحث ہم بقرہ کی تفسیر کے شروع میں کر آئے ہیں۔ کتاب کی صفت ’حکیم‘ اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ یہ کتاب اپنے ہر دعوے پر دلیل و حجت سے اس طرح آراستہ ہے کہ اپنی صداقت کی کسوٹی خود اپنے ہی اندر رکھتی ہے، کسی خارجی شہادت کی محتاج نہیں ہے۔ جو لوگ اس کی صداقت کے ثبوت کے لیے کسی شہادت کے طلب گار ہیں وہ خارج کی بجائے خود اس کے اندر اتریں، اگر ان کی عقل سلیم اور فطرت مستقیم ہو گی تو اس کی حکمت خود ان کے ہر شبہے کو صاف کر دے گی۔