یہ سورہ ’الٓرٰ‘ ہے۔ یہ اُس کتاب کی آیتیں ہیں جو اپنا مدعا پوری وضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہے۔
سورۂ یونس اور سورۂ ہود کی طرح اِس سورہ کا نام بھی ’الٓرٰ‘ ہے۔ اِس سے یہ اشارہ مقصود ہے کہ اِس کا مضمون بھی اصلاً وہی ہے جو پچھلی سورتوں میں زیر بحث رہا ہے۔ اِس نام کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے متعلق اپنا نقطۂ نظر ہم سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت تفصیل کے ساتھ بیان کر چکے ہیں۔
ا، ل، ر۔ یہ اُس کتاب کی آیات ہیں جو اپنا مدعا صاف صاف بیان کرتی ہے۔
n/a
یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں۔
ہم نے اس کو عربی قرآن بنا کر اتارا تاکہ تم سمجھو۔
اہل عرب پر عظیم احسان: ’اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْءٰ نًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ‘۔ خطاب اہل عرب سے عموماً اور قریش سے خاص طور پر ہے کہ اللہ کا تم پر عظیم احسان ہوا ہے کہ اللہ کی یہ سب سے بڑی نعمت تمہاری عربی زبان میں نازل ہوئی ہے تاکہ تم اس کو سمجھو، اس کی قدر کرو اور اس کو دوسروں تک پہنچاؤ اور ان کو سمجھاؤ۔ یہ اس کتاب کے ’کتاب مبین‘ ہونے کا ایک پہلو ہے اور اس میں قریش کے لیے ایک دھمکی بھی ہے کہ اگر تم نے اس نعمت کی قدر نہ کی تو تم سے بڑا بدقسمت بھی کوئی اور نہ ہو گا، یہ جتنی بڑی نعمت ہے اتنی ہی بڑی نقمت کے سزاوار ٹھہرو گے اگر تم نے اس کی قدر نہ کی۔
ہم نے اِس کو عربی زبان میں قرآن بنا کر اتارا ہے تاکہ، (اے قریش مکہ)، تم اِس کو اچھی طرح سمجھ سکو۔
سورہ کے مخاطب قریش ہیں۔ یہ اُنھی پر امتنان و احسان کا اظہار ہے جس میں یہ تنبیہ بھی چھپی ہوئی ہے کہ نہیں سمجھو گے تو یاد رکھو، اِس کے بعد تمھارے پاس کوئی عذر نہیں ہو گا جسے خدا کے حضور میں پیش کر سکو۔
ہم نے اسے نازل کیا ہے قرآن بنا کر عربی زبان میں تاکہ تم (اہل عرب) اس کو اچھی طرح سمجھ سکو۔
قرآن مصدر ہے قَرَأَ یَقرأ سے۔ اس کے اصل معنی ہیں ” پڑھنا “۔ مصدر کو کسی چیز کے لیے جب نام کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اس شے کے اندر معنی مصدری بدرجہ کمال پایا جاتا ہے۔ مثلا جب کسی شخص کو ہم بہادر کہنے کے بجائے ” بہادری “ کہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کے اندر شجاعت ایسی کمال درجہ کی پائی جاتی ہے کہ گویا وہ اور شجاعت ایک چیز ہیں۔ پس اس کتاب کا نام ” قرآن “ (پڑھنا) رکھنے کا مطلب یہ ہوا کہ یہ عام و خاص سب کے پڑھنے کے لیے ہے اور بکثرت پڑھی جانے والی چیز ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کتاب مخصوص طور پر اہل عرب ہی کے لیے نازل کی گئی ہے۔ بلکہ اس فقرے کا اصل مدعا یہ کہنا ہے کہ ” اے اہل عرب، تمہیں یہ باتیں کسی یونانی یا ایرانی زبان میں تو نہیں سنائی جا رہی ہیں، تمہاری اپنی زبان میں ہیں، لہٰذا تم نہ تو یہ عذر پیش کرسکتے ہو کہ یہ باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں اور نہ یہی ممکن ہے کہ اس کتاب میں اعجاز کے جو پہلو ہیں، جو اس کے کلام الٰہی ہونے کی شہادت دیتے ہیں، وہ تمہاری نگاہوں سے پوشیدہ رہ جائیں “۔
بعض لوگ قرآن مجید میں اس طرح کے فقرے دیکھ کر اعتراض پیش کرتے ہیں کہ یہ کتاب تو اہل عرب کے لیے ہے، غیر اہل عرب کے لیے نازل ہی نہیں کی گئی ہے، پھر اسے تمام انسانوں کے لیے ہدایت کیسے کہا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ محض ایک سرسری سا اعتراض ہے جو حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کیے بغیر جڑ دیا جاتا ہے۔ انسانوں کی عام ہدایت کے لیے جو چیز بھی پیش کی جائے گی وہ بہرحال انسانی زبانوں میں سے کسی ایک زبان ہی میں پیش کی جائے گی، اور اس کے پیش کرنے والے کی کوشش یہی ہوگی کہ پہلے وہ اس قوم کو اپنی تعلیم سے پوعی طرح متأثر کرے جس کی زبان میں وہ اسے پیش کر رہا ہے، پھر وہی قوم دوسری قوموں تک اس تعلیم کے پہنچنے کا وسیلہ بنے۔ یہی ایک فطری طریقہ ہے کسی دعوت و تحریک کے بین الاقوامی پیمانے پر پھیلنے کا۔
یقیناً ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل فرمایا ہے کہ تم سمجھ سکو
آسمانی کتابوں کے نزول کا مقصد، لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی ہے اور یہ مقصد اس وقت حاصل ہوسکتا ہے جب وہ کتاب اس زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ سکیں، اس لئے ہر آسمانی کتاب اس قومی زبان میں نازل ہوئی، جس قوم کی ہدایت کے لئے اتاری گئی تھی۔ قرآن کریم کے مخاطب اول چونکہ عرب تھے، اس لئے قرآن بھی عربی زبان میں نازل ہوا علاوہ ازیں عربی زبان اپنی فصاحت و بلاغت اور ادائے معانی کے لحاظ سے دنیا کی بہترین زبان ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس اشرف الکتاب (قرآن مجید) کو اشرف اللغات (عربی) میں اشرف الرسل (حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اشرف الملائکہ (جبرائیل) کے ذریعے سے نازل فرمایا اور مکہ، جہاں اس کا آغاز ہوا، دنیا کا اشرف ترین مقام ہے اور جس مہینے میں نزول کی ابتدا ہوئی وہ بھی اشرف ترین مہینہ۔ رمضان ہے۔
ہم تمہیں ایک بہترین سرگزشت سناتے ہیں اس قرآن کی بدولت جو ہم نے تمہاری طرف وحی کیا۔ اس سے پہلے بے شک تم اس سے نا آشنا تھے۔
’احسن القصص‘ کا مفہوم: ’اَحْسَنَ الْقَصَصِ‘ میں ’قصص‘ قصہ اور سرگزشت کے معنی میں ہے۔ مصدر یعنی قصہ بیان کرنے کے معنی میں نہیں ہے۔ اگر مصدر کے معنی میں ہوتا تو زبان کے معروف استعمال کے مطابق اس پر الف لام نہ آتا بلکہ ’احسن قصص‘ ہوتا۔ اس وجہ سے ہمارے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم تمہیں بہترین قصہ سناتے ہیں۔ یہ معنی اس کے صحیح نہیں ہیں کہ ہم تمہیں بہترین پیرایہ میں سناتے ہیں۔ قرآن کے نظائر سے اسی کی تائید ہوتی ہے، مثلاً سورۂ اعراف میں ہے:
’فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ‘
(پس ان کو سرگزشت سناؤ تاکہ وہ غور کریں)
سورۂ قصص میں ہے:
’فَلَمَّا جَآءَ ہٗ وَقَصَّ عَلَیْہِ الْقَصَصَ‘
(پس جب وہ اس کے پاس آیا اور اس کو سرگزشت سنائی)
ہمارے نزدیک ’احسن القصص‘ اسی طرح کی تالیف کلام ہے جس کی نظیر قرآن میں
’اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ‘۔(۲۳ زمر)
(اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے)
ہے۔ یہ امر بھی یہاں قابل توجہ ہے کہ ’احسن القصص‘ کو مصدر کے معنی میں لینے کی صورت میں مفعول غائب ہو جاتا ہے۔ درآنحالیکہ فعل اپنے مفعول کا مقتضی ہے اور قرآن میں ہر جگہ یہ اپنے مفعول کے ساتھ ہی آیا ہے۔
یہ چند اشارات تالیف کلام سے متعلق ہیں۔ رہا یہ سوال کہ حضرت یوسفؑ کی اس سزگزشت کو ’احسن القصص‘ سے کیوں تعبیر فرمایا گیا ہے تو اس کے بعض پہلو ہم اپنے تمہیدی مباحث میں واضح کر چکے ہیں اور بعض کی طرف ہم آگے ان کے محل میں انشاء اللہ اشارہ کریں گے۔
ایک سرگزشت آنحضرت صلعم کے لیے بمنزلہ آئینہ: اوپر کی آیات میں خطاب عام ہے اور اس کی نوعیت، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، قریش کو تنبیہ کی تھی۔ اب اس آیت سے روئے سخن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف براہ راست ہو گیا ہے۔ آپؐ کو خطاب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ ہم تمہیں ایک بہترین سرگزشت سنا رہے ہیں اور یہ سرگزشت اس قرآن کی بے شمار برکتوں میں سے ایک برکت ہے جو ہم تمہاری طرف وحی کر رہے ہیں، اس سے پہلے تم اس سے بالکل ناآشنا تھے۔
یہاں غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ اس سرگزشت کے دو نہایت اہم پہلو آپؐ کے سامنے واضح کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ احسن القصص ہے، دوسرا یہ کہ یہ آپؐ کی رسالت کی ایک نہایت واضح دلیل ہے۔ جہاں تک اس کے احسن القصص ہونے کا تعلق ہے اس کی وضاحت ہم پیچھے کر چکے ہیں۔ ایک سرگزشت اگر بجائے خود سچی بھی ہو اور جس کو سنائی جا رہی ہو اس کے لیے وہ بمنزلہ ایک آئینہ کے بھی بن جائے جس میں وہ اپنی زندگی کے تمام نشیب و فراز کامیابی کی آخری منزلوں تک، دیکھ لے تو اس سرگزشت سے زیادہ سبق آموز، بابرکت اور قیمتی سرگزشت کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حضرت یوسفؑ کی سرگزشت کی نوعیت یہی تھی۔ اس میں آپؐ کو آپؐ کے حاضر اور مستقبل کا پورا نقشہ دکھا دیا گیا جس میں چند مقامات بہت سخت بھی تھے لیکن آخری منزل نہایت شان دار تھی۔ اس راہ میں اگرچہ غار ثور بھی آتا تھا لیکن غار ثور کی ظلمتوں سے مدینہ کی حکومت بھی نظر آرہی تھی اور مکہ کی پرمحن زندگی کے اندر اس دن کی جھلک بھی نمایاں تھی جب کہ مکہ کے متمردین گھٹنے ٹیک کر آپ سے عفو و کرم کی التجائیں کریں گے۔
سرگزشت کے دلیل رسالت ہونے کی نوعیت: رسالت کی دلیل یہ یوں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم امی تھے۔ آپ نہ تو اس سرگزشت سے واقف ہی تھے نہ آپؐ کے پاس اس سے واقف ہونے کا ذریعہ ہی تھا۔ یہ قرآن کا فیض تھا کہ آپؐ اس سے واقف ہوئے اور اس صحت و صداقت اور ایسی وسعت و تفصیل کے ساتھ واقف ہوئے کہ اہل کتاب بھی اس سے واقف نہ تھے۔ اس پہلو سے یہ آپؐ کی قوم کے لیے بھی آپؐ کی رسالت کی ایک دلیل تھی اور اہل کتاب کے لیے بھی، کہ اگر آپؐ وحی الٰہی سے مشرف نہیں ہیں تو یہ باتیں اس استقصا اور صحت و صداقت کے ساتھ آپؐ کو کیسے معلوم ہوئیں! ’مِنْ قَبْلِہٖ‘ کے لفظ سے اس امر واقعی کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ اگر اس قرآن سے پہلے تمہیں اس سرگزشت کی کچھ بھی واقفیت ہوتی تو چالیس سال کی وسیع مدت میں کبھی تو بات زبان پر آتی۔ پھر تمہارے مخالفین کیوں نہیں سوچتے کہ اگر یہ وحی الٰہی کا فیضان نہیں ہے تو یہ چشمہ یکایک کہاں سے پھوٹ پڑا۔ یہ امر بھی یہاں ملحوظ رہے کہ تورات اور تالمود میں یہ سرگزشت ہے ضرور لیکن اول تو، جیسا کہ ہم نے عرض کیا آپؐ کے پاس ان سے واقف ہونے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، پھر ان کے بیان اور قرآن کے بیان میں قدم قدم پر اختلاف ہے اور اس اختلاف پر جو شخص بھی انصاف سے غور کرے گا وہ اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ قرآن کا بیان بالکل نیچرل ہے اور تورات کا بیان بالکل خلاف عقل و فطرت اور شان نبوت کا منافی۔
(اے پیغمبر)، اِس قرآن کی بدولت جو ہم نے تمھاری طرف وحی کیا ہے، ہم تمھیں ایک بہترین سرگذشت سناتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ (اِس طرح کی چیزوں سے) تم اِس سے پہلے بالکل بے خبر تھے۔
یہ کس لحاظ سے بہترین سرگذشت ہے؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کے جن پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی ہے، اُن کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۱۔ اِس میں حسن و عشق کی چاشنی ہے، مگر یوسف علیہ السلام جو اِس قصے کا مرکزی کردار ہیں، اُن کی شخصیت اِسے پاکیزگیِ سیرت و کردار کا ایک ایسا مرقع بنا دیتی ہے کہ پڑھنے والا اِس کے اندر اپنے ایمان کے لیے غذا اور اپنی روح کے لیے لذت و حلاوت محسوس کرتا ہے۔
۲۔ یوسف علیہ السلام کی فطرت کے جو جوہر اِس قصے میں نمایاں ہوتے ہیں، وہ ایسے شان دار ہیں کہ ہر پڑھنے والے کے اندر اُن کی تقلید کا جذبہ ابھرتا ہے اور خاص بات یہ ہے کہ یہ تقلید ناممکن نہیں ، بلکہ ممکن محسوس ہوتی ہے۔
۳۔ یہ سرگذشت بتاتی ہے کہ انسان کا ظاہری حسن تو زنان مصر کی آنکھیں بھی دیکھ لیتی ہیں، لیکن اُس کے باطن کا حسن اُس وقت نمایاں ہوتا ہے، جب وہ زندگی کے مختلف مراحل میں اُس کی آزمایشوں سے گزرتا ہے۔ سیدنا یوسف کی شخصیت کا یہ حسن بھی اِسی طرح نمایاں ہوا ہے اور اِس سرگذشت میں وہ ذہانت، صداقت، پاکیزگی، پاک دامنی اور انتقام کی قدرت کے باوجود عفو و درگذر کی ایک زندہ جاوید مثال بن کر ابھرے ہیں۔
۴۔ اِس میں جو حالات و واقعات پیش آئے ہیں، وہ نہایت حیرت انگیز ہیں، مگر کسی جگہ محسوس نہیں ہوتا کہ اُن میں کوئی چیز بے جوڑ اور بے ربط ہو گئی ہے یا حالات کی فطری رفتار کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔
۵۔ اِس کے اولین مخاطبین قریش تھے۔ اُن کے لیے تو گویا اِسے ایک آئینہ بنا دیا گیا ہے، جس میں وہ اپنی عاقبت بھی دیکھ سکتے تھے اور اسلام اور مسلمانوں کا مستقبل بھی۔ اِس لحاظ سے یہ ایک صریح پیشین گوئی تھی جسے آیندہ دس سال کے واقعات نے حرف بہ حرف صحیح ثابت کرکے دکھادیا۔ چنانچہ اِس کے نزول پر ڈیڑھ دو سال ہی گزرے تھے کہ قریش نے برادران یوسف کی طرح دارالندوہ میں رسول اللہ کے قتل کی سازش کی، مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اُن کے شر سے محفوظ رکھا۔ آپ مکہ سے نکلے اور غار ثور میں جا چھپے ۔ اِس کے بعد وہاں سے نکل کر مدینہ پہنچ گئے۔ پھر قریش کی توقعات کے بالکل خلاف آپ کو وہاں ایسا وقار اور اقتدار حاصل ہوا کہ چشم فلک نے اُس کی نظیر نہیں دیکھی۔ اہل مکہ کو طوعاً و کرہاً آپ کی اطاعت میں داخل ہونا پڑا، یہاں تک کہ فتح مکہ کے موقع پر ٹھیک وہی صورت پیدا ہو گئی جو مصر کے پایۂ تخت میں یوسف علیہ السلام کے سامنے اُن کے بھائیوں کی حاضری کے موقع پر پیدا ہوئی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کے لوگوں سے پوچھا: بتاؤ، میں تمھارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟ اُنھوں نے عرض کیا: ’أخ کریم و إبن أخ کریم‘، آپ ایک عالی ظرف بھائی اور عالی ظرف بھائی کے بیٹے ہیں۔اِس پر آپ نے فرمایا: میں تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی: ’لا تثریب علیکم الیوم، إذھبوا فأنتم الطلقاء‘ جاؤ، تم آزاد ہو، آج تم پر کوئی گرفت نہیں۔
یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ قرآن کے مخاطبین اِس قصے پر اِس پہلو سے بھی غور کریں کہ اگر آپ وحی الٰہی سے مشرف نہیں ہوئے تو آپ کے لیے یہ کس طرح ممکن ہوا کہ اِس استقصا اور اِس صحت و صداقت کے ساتھ یہ قصہ سنا سکیں؟ آخر اِس قرآن کے نزول سے پہلے بھی آپ کم و بیش چالیس سال اپنی قوم میں گزار چکے تھے۔ آپ کو اِس سرگذشت سے کچھ بھی واقفیت ہوتی تو اِس طرح کی کوئی بات اِس مدت میں بھی کبھی تو آپ کی زبان پر آتی۔ آپ کے مخاطبین جانتے تھے کہ جس وضاحت اور جس یقین و اذعان کے ساتھ آپ یہ قصہ سنا رہے ہیں، اُس کے کوئی آثار اِس سے پہلے کبھی آپ کی کسی گفتگو میں نہیں دیکھے گئے۔ چنانچہ قرآن نے توجہ دلائی ہے کہ سننے والے اِس پر بھی غور کریں۔
اے محمدؐ، ہم اس قرآن کو تمہاری طرف وحی کر کے بہترین پیرایہ میں واقعات اور حقائق تم سے بیان کرتے ہیں، ورنہ اس سے پہلے تو (ان چیزو ں سے) تم بالکل ہی بے خبر تھے۔
سورة کے دیباچے میں ہم بیان کرچکے ہیں کہ کفار مکہ میں سے بعض لوگوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امتحان لینے کے لیے، بلکہ اپنے نزدیک آپ کا بھرم کھولنے کے لیے، غالبا یہودیوں کے اشارے پر، آپ کے سامنے اچانک یہ سوال پیش کیا تھا کہ بنی اسرائیل کے مصر پہنچنے کا کیا سبب ہوا۔ اسی بنا پر ان کے جواب میں تاریخ بنی اسرائیل کا یہ باب پیش کرنے سے پہلے تمہیدا یہ فقرہ ارشاد ہوا ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تم ان واقعات سے بیخبر تھے، دراصل یہ ہم ہیں جو وحی کے ذریعہ سے تمہیں ان کی خبر دے رہے ہیں۔ بظاہر اس فقرے میں خطاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے، لیکن اصل میں روئے سخن ان مخالفین کی طرف ہے جن کو یقین نہ تھا کہ آپ کو وحی کے ذریعہ سے علم حاصل ہوتا ہے۔
ہم آپ کے سامنے بہترین بیان پیش کرتے ہیں اس وجہ سے کہ ہم نے آپ کی جانب یہ قرآن وحی کے ذریعے نازل کیا اور یقیناً آپ اس سے پہلے بیخبر وں میں تھے ۔
قصص، یہ مصدر ہے معنی ہیں کسی چیز کے پیچھے لگنا مطلب دلچسپ واقعہ ہے قصہ، محض کہانی یا طبع زاد افسانے کو نہیں کہا جاتا بلکہ ماضی میں گزر جانے والے واقعے کے بیان کو قصہ کہا جاتا ہے۔ یہ گویا ماضی کا واقعی اور حقیقی بیان ہے اور اس واقع میں حسد وعناد کا انجام، تائید الٰہی کی کرشمہ سازیاں، نفس امارہ کی شورشیں اور سرکشیوں کا نتیجہ اور دیگر انسانی عوارض و حوارث کا نہایت دلچسپ بیان اور عبرت انگیز پہلو ہیں، اس لئے اس قرآن نے احسن القصص (بہترین بیان) سے تعبیر کیا ہے۔
قرآن کریم کے ان الفاظ سے بھی واضح ہے نبی کریم عالم الغیب نہیں تھے، ورنہ اللہ تعالیٰ آپ کو بیخبر قرار نہ دیتا، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آپ اللہ کے سچے نبی ہیں کیونکہ آپ پر وحی کے ذریعے سے ہی سچا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ آپ نہ کسی کے شاگرد تھے، کہ کسی استاد سے سیکھ کر بیان فرما دیتے، نہ کسی اور سے ہی ایسا تعلق تھا کہ جس سے سن کر تاریخ کا یہ واقعہ اپنے اہم جزئیات کے ساتھ آپ نشر کردیتے۔ یہ یقیناً اللہ تعالیٰ ہی نے وحی کے ذریعے سے آپ پر نازل فرمایا ہے جیسا کہ اس مقام پر صراحت کی گئی ہے۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب یوسفؑ نے اپنے باپ سے کہا کہ ابا جان! میں نے خواب میں گیارہ ستارے اور سورج اور چاند دیکھے، میں نے ان کو دیکھا کہ وہ میرے آگے سربسجود ہیں۔
حضرت یوسفؑ کا خواب: اب یہ اصل سرگزشت کی تمہید شروع ہوتی ہے۔ حضرت یوسفؑ نے ایک دن اپنے والد حضرت یعقوبؑ سے اپنا ایک خواب بیان کیا کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند میرے آگے سربسجود ہیں۔ حضرت یوسفؑ کا اس خواب کو سب سے پہلے اپنے والد کے علم میں لانا ان کی غیرمعمولی سلیم الطبعی، نیک نیتی اور سعادت مندی کی دلیل ہے۔ اس طرح کا خواب اگر کوئی اوچھی طبیعت کا آدمی دیکھتا تو سب سے پہلے اپنی بڑائی کا ڈھول دوسروں میں پیٹتا لیکن حضرت یوسفؑ بچپن ہی سے نہایت رزین، متین اور سنجیدہ تھے۔ انھوں نے یہ خواب دیکھا تو انھیں یہ محسوس ہوا کہ یہ خواب خواب پریشاں کی نوعیت کا نہیں ہے بلکہ اہمیت رکھنے والا خواب ہے اس وجہ سے انھوں نے اس کو سب سے پہلے اپنے والد ماجد کے سامنے پیش کیا جن پر ہر پہلو سے ان کو سب سے زیادہ اعتماد تھا۔ آیت کے الفاظ پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ ان کی طبیعت کے اندر جو تواضع تھی وہ خواب کو پیش کرنے کے انداز میں بھی نمایاں ہے۔ حضرت یعقوبؑ کے سامنے جاتے ہی بے دھڑک یوں نہیں کہہ دیا کہ میں نے گیارہ ستاروں اور سورج چاند کو اپنے آگے سربسجود دیکھا بلکہ خواب کا ابتدائی حصہ کہ ’میں نے گیارہ ستاروں اور سورج چاند کو دیکھا، کہہ کر ٹھٹک گئے اس لیے کہ آگے کی بات میں ان کی بڑائی نمایاں تھی جس کے اظہار سے ان کی متواضع طبیعت جھجھکتی تھی لیکن چونکہ اظہار ضروری تھا اس وجہ سے ذرا توقف کے بعد فرمایا کہ ’رَاَیْتُھُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ‘ میں نے دیکھا کہ وہ میرے لیے سجدے میں پڑے ہوئے ہیں۔ عربیت کا ذوق رکھنے والے اندازہ کر سکتے ہیں کہ فعل ’رایت‘ کے اعادہ میں یہ بلاغت ہے کہ اس میں رویا کے بیان کرتے وقت خاص کر واقعۂ سجدہ کے بیان کرتے وقت، حضرت یوسفؑ پر جو جھجھک طاری رہی ہے وہ واضح ہے۔
یہ اُس وقت کا قصہ ہے، جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا: ابا جان، میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ہیں اور سورج اورچاند ہیں۔ میں نے اُن کو دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔
یعنی یعقوب علیہ السلام سے۔ حضرت یوسف اُن کے بیٹے، حضرت اسحاق کے پوتے اور حضرت ابراہیم کے پرپوتے تھے۔ بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب کے بارہ بیٹے اُن کی چار بیویوں سے تھے۔ اُن میں سے حضرت یوسف اور اُن کے چھوٹے بھائی بن یمین ایک بیوی سے تھے اور باقی دس دوسری بیویوں سے۔ یہ لوگ فلسطین کے علاقے حبرون کی وادی میں رہتے تھے۔ اِسے اب الخیل کہا جاتا ہے۔ یہاں جو واقعہ بیان کیا جا رہا ہے، بائیبل کے علما کی تحقیق کے مطابق وہ ۱۸۹۰ قبل مسیح کے قریب زمانے میں کسی وقت پیش آیا تھا۔ حضرت یوسف کی عمر اُس وقت سترہ برس کی تھی۔
یوسف علیہ السلام نے یہ خواب جس طرح سنایا ہے، اُس سے اُن کی طبیعت کے اندر جو تواضع تھی، وہ پوری طرح نمایاں ہو گئی ہے۔ اُنھوں نے پہلے صرف اتنی بات کہی کہ میں نے گیارہ ستارے اور سورج اور چاند دیکھے ہیں۔ پھر آگے کی بات سے چونکہ اُن کی بڑائی سامنے آ رہی تھی، اِس لیے کسی قدر رک کر جھجکتے ہوئے بیان کیا ہے کہ میں نے دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔ آیت میں فعل ’رَاَیْتُ‘ کے اعادے نے یہ جھجک پوری طرح ظاہر کر دی ہے۔
یہ اُس وقت کا ذکر ہے جب یوسفؑ نے اپنے باپ سے کہا “ابا جان، میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ہیں اور سورج اور چاند ہیں اور وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔”
n/a
جب کہ یوسف نے اپنے باپ سے ذکر کیا کہ ابا جان میں نے گیارہ ستاروں کو اور سورج چاند کو دیکھا کہ وہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔
یعنی اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قوم کے سامنے یوسف (علیہ السلام) کا قصہ بیان کرو، جب اس نے اپنے باپ کو کہا باپ حضرت یعقوب (علیہ السلام) تھے، جیسا کہ دوسرے مقام پر صراحت ہے اور حدیث میں بھی یہ نسب بیان کیا گیا ہے۔ (یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم) ۔ اور حدیث میں نسب بیان کیا گیا ہے۔ الکریم ابن الکریم ابن الکریم ابن الکریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (مسند احمد جلد ٢، ص ٩٦)
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ گیارہ ستاروں سے مراد حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی ہیں جو گیارہ تھے چاند سورج سے مراد ماں اور باپ ہیں اور خواب کی تعبیر چالیس یا اسی سال کے بعد اس وقت سامنے آئی جب یہ سارے بھائی اپنے والدین سمیت مصر گئے اور وہاں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے، جیسا کہ یہ تفصیل سورت کے آخر میں آئے گی۔
اس نے جواب دیا کہ اے میرے بیٹے تم اپنے اس خواب کو اپنے بھائیوں کو نہ سنانا کہ وہ تمہارے خلاف کسی سازش میں لگ جائیں۔ شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے۔
حضرت یعقوبؑ کی تعبیر اور حضرت یوسفؑ کو ہدایت: حضرت یعقوبؑ نے خواب سنتے ہی یہ اندازہ فرما لیا کہ یہ منصب نبوت پر سرفرازی کا اشارہ ہے لیکن اس بشارت سے پہلے انھوں نے حضرت یوسفؑ کو تاکید کے ساتھ منع فرمایا کہ یہ خواب اپنے بھائیوں کے آگے نہ بیان کر دینا کہ کہیں وہ حسد سے جل بھن کر تمہارے خلاف کسی سازش میں سرگرم ہو جائیں۔ یہ امر یہاں واضح رہے کہ حضرت یوسفؑ کے کل گیارہ بھائی تھے جن میں سے دس ان کی سوتیلی ماؤں سے تھے۔ صرف سب سے چھوٹے بھائی بن یامین ان کی اپنی ماں سے تھے۔ یہاں اشارہ انھی دس سوتیلے بھائیوں کی طرف ہے۔ چونکہ ان بھائیوں کی پرخاش حضرت یوسفؑ کے ساتھ واضح تھی اس وجہ سے حضرت یوسفؑ کو اندیشہ ہوا کہ اگر کہیں انھوں نے یوسفؑ کا خواب سن لیا تو ان کی حسد کی آگ اور بھڑک اٹھے گی اور عجب نہیں کہ وہ حسد سے اندھے ہو کر ان کو نقصان پہنچانے کی کوئی خطرناک سازش کر ڈالیں ’اِنَّ الشَّیْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ‘ یعنی کھلا ہوا دشمن شیطان تو موجود ہی ہے، وہ کہیں ان کو کسی فتنہ کی راہ پر نہ ڈال دے۔
جواب میں اُس کے باپ نے کہا: بیٹا، اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا، ایسا نہ ہو کہ وہ تمھارے خلاف کوئی سازش کرنے لگیں۔ اِس میں شبہ نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
اِس سے معلوم ہوا کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی پرخاش اُن کے ساتھ واضح تھی۔ اُن کی اعلیٰ صلاحیتوں کو دیکھ کر حضرت یعقوب اُن سے غیر معمولی طور پر محبت کرنے لگے تھے اور یہی چیز اُن کے بھائیوں کے لیے اُن کے ساتھ حسد کا باعث بن گئی تھی۔
جواب میں اس کے باپ نے کہا، “بیٹا، اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا ورنہ وہ تیرے درپے آزار ہو جائیں گے، حقیقت یہ ہے کہ شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے۔
اس سے مراد حضرت یوسف (علیہ السلام) کے وہ دس بھائی ہیں جو دوسری ماؤں سے تھے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو معلوم تھا کہ یہ سوتیلے بھائی یوسف (علیہ السلام) سے حسد رکھتے ہیں اور اخلاق کے لحاظ سے بھی ایسے صالح نہیں ہیں کہ اپنا مطلب نکالنے کے لیے کوئی ناروا کارروائی کرنے میں انہیں کوئی تأمل ہو، اس لیے انہوں نے اپنے صالح بیٹے کو متنبہ فرما دیا کہ ان سے ہوشیار رہنا۔ خواب کا صاف مطلب یہ تھا کہ سورج سے مراد حضرت یعقوب (علیہ السلام) ، چاند سے مراد ان کی بیوی (حضرت یوسف (علیہ السلام) کی سوتیلی والدہ) اور گیارہ ستاروں سے مراد گیارہ بھائی ہیں۔
یعقوب نے کہا پیارے بچے ! اپنے اس خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ وہ تیرے ساتھ کوئی فریب کاری کریں شیطان تو انسان کا کھلا دشمن ہے ۔
حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے خواب سے اندازہ لگا لیا کہ ان کا یہ بیٹا عظمت شان کا حامل ہوگا، اس لئے انھیں اندیشہ ہوا کہ یہ خواب سن کر اس کے دوسرے بھائی بھی اس کی عظمت کا اندازہ کر کے کہیں اسے نقصان نہ پہنچائیں، بنا بریں انہوں نے یہ خواب بیان کرنے سے منع فرمایا۔
یہ بھائیوں کے مکروفریب کی وجہ بیان فرما دی کہ شیطان چونکہ انسان کا ازلی دشمن ہے اس لئے وہ انسانوں کو بہکانے، گمراہ کرنے اور انھیں حسد و بغض میں مبتلا کرنے میں ہر وقت کوشاں اور تاک میں رہتا ہے۔ چنانچہ یہ شیطان کے لئے بڑا اچھا موقع تھا کہ وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے خلاف بھائیوں کے دلوں میں حسد اور بغض کی آگ بھڑکا دے۔ جیسا کہ فی الواقع بعد میں اس نے ایسا ہی کیا اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا اندیشہ درست ثابت ہوا۔
اور اسی طرح تمہارا رب تمہیں برگزیدہ کرے گا اور تمہیں باتوں کی حقیقتوں تک پہنچنا سکھائے گا اور تم پر اور آل یعقوب پر اپنی نعمت تمام کرے گا جس طرح اس نے اس سے پہلے تمہارے اجداد ابراہیمؑ اور اسحاقؑ پر اپنی نعمت تمام کی۔ بے شک تمہارا رب بڑا ہی علیم و حکیم ہے۔
حضرت یعقوبؑ نے جب خواب سنا تو چونکہ یہ بات ان کے علم میں تھی کہ نبوت کا آغاز رویائے صادقہ ہی سے ہوتا ہے اور اس خواب کا ظاہر ہی بتا رہا تھا کہ یہ سچا خواب ہے اور خواب دیکھنے والے کے لیے ایک شان دار مستقبل کی پیشین گوئی کر رہا ہے اس وجہ سے انھوں نے فرمایا کہ یہ جو کچھ تم نے دیکھا ہے ٹھیک ہے۔ جلد وہ وقت آنے والا ہے جب تمہارا رب تمہیں منصب نبوت کے لیے منتخب فرمائے گا۔
’وَیُعَلِّمُکَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ‘ میں دو باتوں کی طرف اشارہ ہے ایک تو اس بات کی طرف کہ اس رویا کی حقیقت اللہ تعالیٰ خود تم پر واضح فرما دے گا۔ چنانچہ جب اس کی حقیقت حضرت یوسفؑ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لی تو فرمایا:
’یٰٓاَبَتِ ھٰذَا تَاْوِیْلُ رُءْ یَایَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَھَا رَبِّیْ حَقًّا وَقَدْ اَحْسَنَ بِیْٓ اِذْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ السِّجْنِ وَجَآءَ بِکُمْ مِّنَ الْبَدْوِ مِنْم بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّیْطٰنُ بَیْنِیْ وَبَیْنَ اِخْوَتِیْ اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْفٌ لِّمَا یَشَآءُ اِنَّہٗ ھُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ ۵ رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْکِ وَعَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ‘۔
(اے میرے باپ یہ میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے پہلے دیکھا تھا۔ میرے رب نے اس کو حقیقت کر دکھایا اور اس نے مجھ پر بڑا ہی کرم فرمایا جب کہ مجھے قید خانہ سے باہر نکالا اور آپ لوگوں کو بعد اس کے کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈال دیا تھا، دیہات سے یہاں لایا، میرا رب جو کچھ چاہتا ہے اس کو نہایت خوبی سے کر دکھاتا ہے۔ وہ بڑا ہی علیم و حکیم ہے۔ اے میرے رب تو نے مجھے حکومت بھی عطا فرمائی اور رویا کی تعبیر بھی بتائی)۔
تعبیر رؤیا کا علم: دوسری یہ کہ رویا چونکہ علوم نبوت کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے اور رویا میں حقائق مجاز کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں جن کو سمجھنا ایک خاص ذہنی مناسبت کا مقتضی ہے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ حضرات انبیاء علیہم السلام کو تعبیر رویا کا ایک خاص ذوق اور ایک خاص علم بھی عطا فرماتا ہے۔ حضرت یعقوبؑ نے جب محسوس فرما لیا کہ اس رویا میں حضرت یوسفؑ کے لیے نبوت کی بشارت ہے تو ساتھ ہی ان پر یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ اب حضرت یوسفؑ کو تعبیر رویا کا علم بھی عطا ہو گا تاکہ رویا کی شکل میں جو حقائق ان پر وارد ہوں ان کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر وہ منشائے خداوندی کی تعمیل کر سکیں۔ چنانچہ آگے اسی سورہ میں آئے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اس علم میں ان کا درجہ اتنا بلند کیا کہ بالآخر یہی علم ان کے لیے مصر کی بادشاہی کے حصول کا ذریعہ بن گیا۔
اصل نعمت دین و شریعت ہے: ’یُتِمُّ عَلَیْکَ ....... الایہ‘۔ نعمت سے مراد دین و شریعت کی نعمت ہے۔ دنیا کی دوسری چیزوں کا نعمت ہونا ایک امر اضافی ہے۔ جب بندے کو دین و شریعت کی نعمت ملتی ہے تب ہی نعمت کامل ہوتی ہے۔ حضرت یعقوبؑ نے فرمایا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہارے اجداد ابراہیمؑ اور اسحقؑ کو اپنی نعمت سے نوازا اسی طرح وہ تم کو اور آل یعقوب کو بھی اس نعمت سے نوازے گا اور تم نے جو رویا دیکھی ہے وہ اسی اتمام نعمت کی بشارت ہے۔ اللہ بڑا ہی علیم و حکیم ہے۔ وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے اور جو کچھ کرتا ہے وہ حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔
(تمھارا یہ خواب بتا رہا ہے کہ) تمھارا پروردگار تمھیں اِسی طرح برگزیدہ کرے گا اور تمھیں باتوں کی حقیقت تک پہنچنا سکھائے گا اور تم پر اور آل یعقوب پر اپنی نعمت تمام کرے گا، جس طرح وہ اِس سے پہلے تمھارے بزرگوں ابراہیم اور اسحق پر کر چکا ہے۔ یقیناًتیرا پروردگار علیم و حکیم ہے۔
یعنی نبوت عطا کرے گا۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت یعقوب نے خواب سنتے ہی اندازہ فرما لیا کہ یہ منصب نبوت پر سرفرازی کا اشارہ ہے۔
یعنی اِس رویا کی حقیقت بھی تم پر واضح ہو جائے گی اور اِس نوعیت کی دوسری چیزوں کو سمجھنے کا علم بھی عطا ہو گا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...رویا چونکہ علم نبوت کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے اور رویا میں حقائق مجاز کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں جن کو سمجھنا ایک خاص ذہنی مناسبت کا مقتضی ہے، اِس وجہ سے اللہ تعالیٰ حضرات انبیا علیہم السلام کو تعبیر رویا کا ایک خاص ذوق اور ایک خاص علم بھی عطا فرماتاہے۔‘‘(تدبرقرآن۴/ ۱۹۲)
یہ خاص تعبیر ہے جو دین و شریعت کی نعمت کے لیے قرآن کے دوسرے مقامات میں بھی اختیار کی گئی ہے۔ انسان کی فطرت میں یہ دین بالاجمال ودیعت ہے۔ انبیا علیہم السلام چونکہ اِس کی تمام فروع اور تفصیلات کے ساتھ اِس کو بالکل واضح اور متعین کر دیتے ہیں، اِس لیے قرآن اِسے اتمام نعمت سے تعبیر کرتا ہے۔
اور ایسا ہی ہوگا (جیسا تو نے خواب میں دیکھا ہے کہ) تیرا رب تجھے (اپنے کام کے لیے) منتخب کرے گا اور تجھے باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھائے گا اور تیرے اوپر اور آل یعقوبؑ پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جس طرح اس سے پہلے وہ تیرے بزرگوں، ابراہیمؑ اور اسحاقؑ پر کر چکا ہے، یقیناً تیرا رب علیم اور حکیم ہے۔”
یعنی نبوت عطا کرے گا۔
” تَاوِیل الاَحَا دیثِ “ کا مطلب محض تعبیر خواب کا علم نہیں ہے جیسا کہ گمان کیا گیا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے معاملہ فہمی اور حقیقت رسی کی تعلیم دے گا اور وہ بصیرت تجھ کو عطا کرے گا جس سے تو ہر معاملہ کی گہرائی میں اترنے اور اس کی تہہ کو پالینے کے قابل ہوجائے گا۔
بائیبل اور تلمود کا بیان قرآن کے اس بیان سے مختلف ہے۔ ان کا بیان یہ ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے خواب سن کر بیٹے کو خوب ڈانٹا اور کہا، اچھا اب تو یہ خواب دیکھنے لگا ہے کہ میں اور تیری ماں اور تیرے سب بھائی تجھے سجدہ کریں گے۔ لیکن ذرا غور کرنے سے بآسانی یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی پیغمبرانہ سیرت سے قرآن کا بیان زیادہ مناسبت رکھتا ہے نہ کہ بائیبل اور تلمود کا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے خواب بیان کیا تھا، کوئی اپنی تمنا اور خواہش نہیں بیان کی تھی خواب اگر سچا تھا، اور ظاہر ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے جو اس کی تعبیر نکالی وہ سچا خواب ہی سمجھ کر نکالی تھی، تو اس کے صاف معنی یہ تھے کہ یہ یوسف (علیہ السلام) کی خواہش نہیں تھی بلکہ تقدیر الٰہی کا فیصلہ تھا کہ ایک وقت ان کو یہ عروج حاصل ہوا۔ پھر کیا ایک پیغمبر تو درکنار ایک معقول آدمی کا بھی یہ کام ہوسکتا ہے کہ ایسی بات پر برا مانے اور خواب دیکھنے والے کو الٹی ڈانٹ پلائے ؟ اور کیا کوئی شریف باپ ایسا بھی ہوسکتا ہے جو اپنے ہی بیٹے کے آئندہ عروج کی بشارت سن کر خوش ہونے کے بجائے الٹا جل بھن جائے ؟
اور اسی طرح تجھے تیرا پروردگار برگزیدہ کرے گا اور تجھے معاملہ فہمی (یا خوابوں کی تعبیر) بھی سکھائے گا اور اپنی نعمت تجھے بھرپور عطا فرمائے گا اور یعقوب کے گھر والوں کو بھی جیسے کہ اس نے پہلے تیرے دادا پردادا یعنی ابراہیم و اسحاق کو بھی بھرپور اپنی رحمت دی، یقیناً تیرا رب بہت بڑے علم والا اور زبردست حکمت والا ہے۔
یعنی جس طرح تجھے تیرے رب نے نہایت عظمت والا خواب دکھانے کے لئے چن لیا، اسی طرح تیرا رب تجھے برگزیدگی بھی عطا کرے گا اور خوابوں کی تعبیر سکھائے گا۔ تاویل الاحادیث کے اصل معنی باتوں کی تہہ تک پہنچنا ہے۔ یہاں خواب کی تعبیر مراد ہے۔
اس سے مراد نبوت ہے جو یوسف (علیہ السلام) کو عطا کی گئی۔ یا وہ انعامات ہیں جن سے مصر میں یوسف (علیہ السلام) نوازے گئے۔
٦۔ ٣ اس سے مراد حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی، ان کی اولاد وغیرہ ہیں، جو بعد میں انعامات الٰہی کے مستحق بنے۔
بے شک یوسف اور اس کے بھائیوں کی سرگزشت میں پوچھنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔
سرگزشت سے پہلے ایک تنبیہ: غلبۂ حق اور ہزیمت باطل کی بشارت: یہ آیت، جیسا کہ ہم نے تمہید میں اشارہ کیا، اصل سرگزشت کے شروع کرنے سے پہلے ایک تنبیہ ہے کہ مخاطب اس کو محض ایک کہانی کی طرح نہ سنیں بلکہ اس میں ان بہت سے سوالوں کے جواب مضمر ہیں جو دعوت اسلامی کے اس دور میں مخالفین و موافقین دونوں ہی کے ذہنوں میں ابھر رہے ہیں۔ اس گروپ کی پچھلی سورتوں میں حق کے غلبہ اور باطل کی ہزیمت کا مضمون مختلف اسلوبوں سے بیان ہوا ہے لیکن جس وقت یہ مضمون بیان ہوا ہے پورے ملک پر اس طرح کفر کی تاریکی چھائی ہوئی تھی کہ یہ تصور کرنا کچھ آسان نہ تھا کہ یہ تاریکی ایک دن بالکل کافور ہو جائے گی اور جو شخص آج اپنے چند نہایت مظلوم ساتھیوں کے ساتھ وقت کے متمردین کے ہاتھوں ہر قسم کے مصائب و مظالم کا ہدف ہے ایک دن آئے گا کہ یہ تمام متمردین اس کے آگے گھٹنے ٹیک کر اس سے رحم و کرم کی التجائیں کریں گے۔ قرآن نے اس تصور کو ذہنوں کے قریب لانے کے لیے یہ سرگزشت سنائی تاکہ اس امر سے متعلق ذہنوں میں جتنے بھی سوالات و شبہات موجود ہوں یا آئندہ پیدا ہو سکتے ہوں وہ دور ہو جائیں اور لوگوں کو اندازہ ہو جائے کہ خدا کی شانیں یوں ظاہر ہوتی ہیں اور اس کے ارادے اور منصوبے یوں بروئے کار آتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یوسف اور اُس کے بھائیوں (کی اِس سرگذشت) میں پوچھنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔
یعنی اُن لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جن کے ذہنوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دعوت سے متعلق اِس طرح کے سوالات پیدا ہو رہے ہیں کہ آگے کیا ہو گا اور کس طرح ہو گا۔ اِس دعوت کے جن شان دار نتائج کی طرف اشارے کیے جا رہے ہیں، وہ کیسے نمودار ہوں گے، جبکہ اِس وقت تو اِس کے علم بردار وقت کے متمردین کے ہاتھوں ہر قسم کے آلام و مصائب کا ہدف بنے ہوئے ہیں اور ہر طرف اُنھی عقائد و افکار کا غلبہ نظر آتا ہے جنھیں یہ لوگ ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یوسفؑ اور اس کے بھائیوں کے قصہ میں اِن پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔
n/a
یقیناً یوسف اور اس کے بھائیوں میں دریافت کرنے والوں کے لئے (بڑی) نشانیاں ہیں۔
یعنی اس قصے میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت اور نبی کریم کی نبوت کی صداقت کی بڑی نشانیاں ہیں۔ بعض مفسرین نے یہاں ان بھائیوں کے نام اور ان کی تفصیل بھی بیان کی ہے۔
خیال کرو جب انھوں نے کہا کہ یوسف اور اس کا بھائی ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں حالانکہ ہم ایک پورا جتھا ہیں۔ بے شک ہمارا باپ ایک کھلی ہوئی غلطی میں مبتلا ہے۔
برادران یوسف کا غصہ: ’عُصْبَۃ‘ کے معنی گروہ، جتھہ اور جماعت کے ہیں، خاص طور پر وہ گروہ جس کے اندر خون کی عصبیت بھی موجود ہو۔ بدویانہ دور زندگی میں، جب منظم حکومتوں کا وجود نہیں تھا، حمایت و مدافعت کا تمام تر انحصار خاندان اور قبیلہ کی عصبیت ہی پر ہوتا تھا۔ سب سے زیادہ باعزت اور بااثر وہ خاندان سمجھا جاتا جس کے اندر حمایت اور مدافعت کے لیے اٹھنے والے نوجوان سب سے زیادہ ہوں۔ اسی خاندان کو قوم و قبیلہ کی سربراہی حاصل ہوتی اور وہی حکومت کرتا۔ حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے اسی امر کو مدنظر رکھ کر نعوذ باللہ اپنے باپ کی بے خردی اور ناعاقبت اندیشی پر آپس میں غصہ کا اظہار کیا کہ جتھہ اور گروہ کی حیثیت تو ہماری ہے، حمایت و مدافعت کا ذریعہ تو ہم بنیں گے، دوسروں پر دھاک تو ہمارے بل بوتے پر بیٹھے گی لیکن ہمارے باپ کا حال یہ ہے کہ اس کو محبت یوسف اور اس کے بھائی بنیامین سے ہے، اس سے بڑی غلطی اور گمراہی اور کیا ہو سکتی ہے۔
جب اُس کے بھائیوں نے آپس میں کہا کہ یوسف اور اُس کا بھائی، ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ محبوب ہیں، حالاں کہ ہم ایک پورا جتھا ہیں۔ یقیناً ہمارا باپ ایک کھلی ہوئی غلطی میں مبتلا ہے۔
اِس سے یوسف علیہ السلام کے حقیقی بھائی بن یمین مراد ہیں۔ یہ اُن سے کئی سال چھوٹے تھے۔
بدویانہ زندگی میں آدمی کی قوت کا انحصار جوان بیٹوں ہی پر ہوتا تھا۔ وہی دشمنوں کے مقابلے میں اُس کے کام آتے تھے۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اِسی کے پیش نظر کہا ہے کہ والد، معاذ اللہ، ایسے نا عاقبت اندیش ہو گئے ہیں کہ بیٹوں کا جو جتھا مشکل وقت میں اُن کے کام آ سکتا تھا، اُسے تو نظر انداز کر رہے ہیں اور اپنی محبت اُن چھوٹے بچوں پر نچھاور کرتے ہیں جو اُن کے کسی کام نہیں آسکتے، بلکہ خود ہی حفاظت کے محتاج ہیں۔
یہ قصہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اس کے بھائیوں نے آپس میں کہا “یہ یوسفؑ اور اس کا بھائی، دونوں ہمارے والد کو ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم ایک پورا جتھا ہیں سچی بات یہ ہے کہ ہمارے ابا جان با لکل ہی بہک گئے ہیں۔
اس سے مراد حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حقیقی بھائی بنیامین ہیں جو ان سے کئی سال چھوٹے تھے۔ ان کی پیدائش کے وقت ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) ان دونوں بےماں کے بچوں کا زیادہ خیال رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ اس سے محبت کی وجہ یہ بھی تھی کہ ان کی ساری اولاد میں صرف ایک حضرت یوسف (علیہ السلام) ہی ایسے تھے جن کے اندر ان کو آثار رشد و سعادت نظر آتے تھے۔ اوپر حضرت یوسف (علیہ السلام) کا خواب سن کر انہوں نے جو کچھ فرمایا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس بیٹے کی غیر معمولی صلاحیتوں سے خوب واقف تھے۔ دوسری طرف ان دس بڑے صاحبزادوں کی سیرت کا جو حال تھا اس کا اندازہ بھی آگے کے واقعات سے ہوجاتا ہے۔ پھر کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ ایک نیک انسان ایسی اولاد سے خوش رہ سکے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ بائیبل میں برادران یوسف (علیہ السلام) کے حد کی ایک ایسی وجہ بیان کی گئی ہے جس سے الٹا الزام حضرت یوسف (علیہ السلام) پر عائد ہوتا ہے۔ اس کا بیان ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) بھائیوں کی چغلیاں باپ سے کھایا کرتے تھے اس وجہ سے بھائی ان سے ناراض تھے۔
اس فقرے کی روح سمجھنے کے لیے بدویانہ قبائلی زندگی کے حالات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ جہاں کوئی ریاست موجود نہیں ہوتی اور آزاد قبائل ایک دوسرے کے پہلو میں آباد ہوتے ہیں، وہاں ایک شخص کی قوت کا سارا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ اس کے اپنے بیٹے، پوتے، بھائی، بھتیجے بہت سے ہوں جو وقت آنے پر اس کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کے لیے اس کا ساتھ دے سکیں۔ ایسے حالات میں عورتوں اور بچوں کی بہ نسبت فطری طور پر آدمی کو وہ جوان بیٹے زیادہ عزیز ہوتے ہیں جو دشمنوں کے مقابلہ میں کام آسکتے ہوں۔ اسی بنا پر ان بھائیوں نے کہا کہ ہمارے والد بڑھاپے میں سٹیا گئے ہیں۔ ہم جوان بیٹوں کا جتھا، جو برے وقت پر ان کے کام آسکتا ہے، ان کو اتنا عزیز نہیں ہے جتنے یہ چھوٹے چھوٹے بچے جو ان کے کسی کام نہیں آسکتے بلکہ الٹے خود ہی حفاظت کے محتاج ہیں۔
جب کہ انہوں نے کہا کہ یوسف اور اس کا بھائی بہ نسبت ہمارے، باپ کو بہت زیادہ پیارے ہیں حالانکہ ہم (طاقتور) جماعت ہیں، کوئی شک نہیں کہ ہمارے ابا صریح غلطی میں ہیں۔
' اس کا بھائی ' سے مراد بنیامین ہے۔
یعنی ہم دس بھائی طاقتور جماعت اور اکثریت میں ہیں، جب کہ یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین (جن کی ماں الگ تھی) صرف دو ہیں، اس کے باوجود باپ کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہیں۔
یہاں ضلال سے مراد غلطی ہے جو ان کے زعم کے مطابق باپ سے یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین سے زیادہ محبت کی صورت میں صادر ہوئی۔
یوسف کو قتل کر دو یا اس کو کہیں پھینک دو تو تمہارے باپ کی ساری توجہ تمہاری ہی طرف ہو جائے گی اور اس کے بعد تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے۔
لفظ ’صالح‘ کا لغوی مفہوم: لفظ ’صالح‘ یہاں ٹھیک اپنے لغوی مفہوم میں ہے۔ عربی میں اگر کہیں ’صَلَحَتْ حَال فلَان‘ تو اس کے معنی ہوں گے، اس کا حال ٹھیک ہو گیا، اس کی پریشانی دور ہو گئی، جو کانٹا اسے چبھ رہا تھا اس سے وہ نجات پا گیا۔
برادران یوسف کی مشورت: یہ وہ علاج ہے جو حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے اپنی پریشانی دور کرنے کے لیے سوچا۔ انھوں نے اسکیم یہ بنائی کہ یوسفؑ کو یا تو قتل کر دیں یا کہیں دور دراز مقام میں لے جا کر پھینک دیں تاکہ ان کے باپ کی ساری توجہ انہی کی طرف ہو جائے اور یہ کانٹا جو انھیں چبھ رہا ہے نکل جائے۔
بعض لوگوں نے ’وَتَکُوْنُوْا مِنْ بَعْدِہٖ قَوْمًا صٰلِحِیْنَ‘ کا یہ مطلب لیا ہے کہ اس جرم کے کر لینے کے بعد پھر نیک بن جانا لیکن یہ معنی اس جملہ کے کسی طرح نہیں ہو سکتے۔ دوسرے پہلوؤں سے قطع نظر جملہ کی نحوی ترکیب ہی اس سے ابا کر رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا عطف سابق جواب امر پر ہے اس وجہ سے جو حکم اس کا ہو گا وہی حکم اس کا بھی ہو گا۔
حضرت یوسفؑ کے بھائیوں کی اس مشورت سے یہ بات بالکل صاف ہو جاتی ہے کہ ان کو اصلی کد حضرت یوسفؑ ہی سے تھی اور اس کد میں اصلی دخل صرف ان کے سوتیلے ہونے کو نہیں تھا بلکہ ان کی ان اعلیٰ صلاحیتوں کو تھا جو اسی عمر سے ان میں ابھرنے لگی تھیں اور جن کو دیکھ کر حضرت یعقوبؑ ان سے غیرمعمولی طور پر محبت کرنے لگے تھے۔ اگر مجرد سوتیلے ہونے کے سبب سے کد ہوتی تو سوتیلے تو بنیامین بھی تھے آخر ان کو ٹھکانے لگانے کی انھوں نے کوئی اسکیم کیوں نہیں بنائی!
(اِس کا علاج یہی ہے کہ) یوسف کو قتل کر دو یا اُس کو کہیں پھینک دو، تمھارے باپ کی توجہ (اِس سے) صرف تمھاری طرف ہو جائے گی اور اِس کے بعد تم لوگ بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے۔
اصل الفاظ ہیں: ’تَکُوْنُوْا مِنْ م بَعْدِہٖ قَوْمًا صٰلِحِیْنَ‘۔ یہ فقرہ سابق جواب امر پر معطوف ہے، اِس لیے اِس کا حکم اُس سے مختلف نہیں ہو سکتا۔چنانچہ لفظ ’صَالِح‘ یہاں نیک کے معنی میں نہیں، بلکہ ٹھیک اپنے لغوی مفہوم میں آیا ہے۔یعنی اِس کے بعد ہم ایسے لوگ ہوں گے جن کا حال بالکل ٹھیک ہو گا، تمام پریشانیاں دور ہو جائیں گی اور یہ کانٹا جو اِس وقت چبھ رہا ہے، نکل جائے گا۔ ہم نے ترجمے میں یہی مدعا ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔
چلو یوسفؑ کو قتل کر دو یا اسے کہیں پھینک دو تاکہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری ہی طرف ہو جائے۔ یہ کام کر لینے کے بعد پھر نیک بن رہنا۔”
یہ فقرہ ان لوگوں کے نفسیات کی بہترین ترجمانی کرتا ہے جو اپنے آپ کو خواہشات نفس کے حوالے کردینے کے ساتھ ایمان اور نیکی سے بھی کچھ رشتہ جوڑے رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ جب کبھی نفس ان سے کسی برے کام کا تقاضا کرتا ہے تو وہ ایمان کے تقاضوں کو ملتوی کر کے پہلے نفس کا تقاضا پورا کرنے پر تل جاتے ہیں اور جب ضمیر اندر سے چٹکیاں لیتا ہے تو اسے یہ کہہ کر تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ذرا صبر کر، یہ ناگزیر گناہ، جس سے ہمارا کام اٹکا ہوا ہے، کہ گزرنے دے، پھر انشاء اللہ ہم توبہ کر کے ویسے ہی نیک بن جائیں گے جیسا تو ہمیں دیکھنا چاہتا ہے۔
یوسف کو مار ہی ڈالو اسے کسی (نامعلوم) جگہ پھینک دو کہ تمہارے والد کا رخ صرف تمہاری طرف ہی ہوجائے۔ اس کے بعد تم نیک ہوجانا ۔
اس سے مراد تائب ہوجانا ہے یعنی کنوئیں میں ڈال کر یا قتل کر کے اللہ سے اس گناہ کے لئے توبہ کرلیں گے۔
ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ یوسف کو قتل تو نہ کرو، اگر تم کچھ کرنے ہی والے ہو تو اس کو کسی کنوئیں کی تہ میں پھینک دو، کوئی راہ چلتا قافلہ اس کو نکال لے جائے گا۔
’غَیَابَۃَ‘ کنوئیں کی تہ کو اور ’جُبّ‘ کچے کنوئیں کو کہتے ہیں۔ صحرائی راستوں میں جن پر سے قافلے گزرتے ہیں اس طرح کے کنوئیں ہوتے تھے جو عام حالات میں تو یوں ہی پڑے رہتے لیکن کوئی قافلہ گزرتا تو ان پر رونق ہو جاتی۔
دس بھائیوں میں سے ایک کے دل میں معلوم ہوتا ہے حضرت یوسفؑ کے لیے کوئی نرم گوشہ تھا۔ اس نے مشورہ دیا کہ قتل تو نہ کرو، اگر کچھ کرنا ہی ہے تو یہ کرو کہ قافلوں کے راستے کے کسی کنوئیں میں اس کو ڈال دو، کوئی قافلہ گزرے گا اس کو نکال لے گا۔ چونکہ اس زمانہ میں بردہ فروشی کا عام رواج تھا اس وجہ سے ممکن ہے یہ خیال بھی ہوا ہو کہ قافلے والے یا تو اس کو غلام بنا لیں گے یا کسی شہر میں لے جا کر اس کو بیچ دیں گے۔ اس طرح اس کی جان بھی بچ جائے گی اور تمہارے پہلو کا کانٹا بھی نکل جائے گا۔ بالآخر اسی مشورے پر سب کا اتفاق رائے ہو گیا۔
(اِس پر) اُن میں سے ایک کہنے والے نے کہا: یوسف کو قتل نہ کرو ، اگر کچھ کرنا ہی ہے تو اُس کو کسی اندھے کنویں کی تہ میں پھینک دو، کوئی راہ چلتا قافلہ اُسے نکال لے جائے گا۔
یہ مشورہ بتا رہا ہے کہ دس بھائیوں میں سے کسی ایک کے دل میں یوسف علیہ السلام کے لیے نرم گوشہ تھا۔ وہ یہ تو ضرور چاہتا تھا کہ پہلو کا یہ کانٹا نکل جائے، مگر اِس حد تک جانے کے لیے تیار نہیں تھا کہ اِس کے لیے اُن کی جان لے لے۔
اس پر ان میں سے ایک بولا “یوسفؑ کو قتل نہ کرو، اگر کچھ کرنا ہی ہے تو اسے کسی اندھے کنویں میں ڈال دو۔ کوئی آتا جاتا قافلہ اسے نکال لے جائے گا۔”
n/a
ان میں سے ایک نے کہا یوسف کو قتل نہ کرو بلکہ اسے کسی اندھے کنوئیں (کی تہ) میں ڈال آؤ کہ اسے کوئی (آتا جاتا) قافلہ اٹھا لے جائے اگر تمہیں کرنا ہی ہے تو یوں کرو ۔
جب کنویں کو اور غَیَابَۃ اس کی تہ اور گہرائی کو کہتے ہیں، کنواں ویسے بھی گہرا ہی ہوتا ہے اور اس میں گری ہوئی چیز کسی کو نظر نہیں آتی۔ جب اس کے ساتھ کنویں کی گہرائی کا بھی ذکر کیا تو گویا مبالغے کا اظہار کیا۔
یعنی آنے جانے والے نو وارد مسافر، جب پانی کی تلاش میں کنوئیں پر آئیں گے تو ممکن ہے کسی کے علم میں آجائے کہ کنوئیں میں کوئی انسان گرا ہوا ہے اور وہ اسے نکال کر اپنے ساتھ لے جائیں۔ یہ تجویز ایک بھائی نے ازراہ شفقت پیش کی تھی۔ قتل کے مقابلے میں یہ تجویز واقعتا ہمدردی کے جذبات ہی کی حامل ہے۔ بھائیوں کی آتش حسد اتنی بھڑکی ہوئی تھی کہ یہ تجویز بھی اس نے ڈرتے ڈرتے ہی پیش کی کہ اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو یہ کام اس طرح کرلو۔
امین احسن اصلاحی
یہ الف، لام، را ہے۔ یہ واضح کتاب کی آیات ہیں۔
سورہ کا قرآنی نام: ’الٓرٰ‘ یہ اس سورہ کا قرآنی نام ہے۔ یہی نام سورۂ یونس اور سورۂ ہود کا بھی ہے۔ نام میں اصل مقصود تسمیہ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ان کے معانی کی کھود کرید کی ضرورت نہیں ہے۔ بس اتنی بات یاد رکھنی چاہیے کہ ناموں کا اشتراک معانی و مطالب کے اشتراک کی دلیل ہوتا ہے۔ سو یہ چیز، جیسا کہ ہم پچھلی دونوں سورتوں کی تفسیر میں اشارہ کر آئے ہیں، ان سب سورتوں میں موجود ہے۔ ان میں اصل موضوع بحث ایک ہی ہے البتہ انداز بحث اور مواد استدلال ہر ایک میں الگ الگ ہے۔
کتاب مبین کا مفہوم: ’تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ‘۔ ’کتاب مبین‘ وہ کتا ب جو اپنے بیان و استدلال میں بالکل واضح ہو، جس کی ہر بات ناقابل انکار دلائل سے مبرہن ہو، جس کا انداز بحث و نظر دل نشین، طمانیت بخش اور تمام الجھنوں کو دور کر دینے والا ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اس کتاب کی صداقت کی گواہی کے لیے کسی خارجی معجزے یا نشانی کی ضرورت نہیں ہے، جیسا کہ منکرین مطالبہ کر رہے ہیں، بلکہ اس کی حقانیت و صداقت کے سورج کی طرح روشن دلائل خود اس کے اندر ہی موجود ہیں بشرطیکہ لوگ کان کھول کر اس کو سنیں اور اس کے دلائل پر غور کریں۔